• عقائد و ایمانیات >> تقلید ائمہ ومسالک

    سوال نمبر: 48744

    عنوان: غیر مقلد کا امام اعظم کی شان میں گستاخی

    سوال: کیا فرماتے ہیں علماء دین قرآن و سنت اور سلف صالحین کے فہم روشنی میں ایک غیر مقلد شخص امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور آپ کے اصحاب اور مسلک حنفی سے کھلی دشمنی رکھتا ہے ، ان کی شان میں گستاخی کو اپنا مذہبی پیشہ سمجھتا ہے ۔ ان کی تحریر سے چند اقتباس پیش کررہا ہوں،ایک جگہ ایک روایت کے ضمن میں امام ابو حنیفہ کا نام لکھ کر امام صاحب اور آپ کے اصحاب پر لعنت کرتا ہے ۔ پھر اس روایت کو بیان کرتا ہے ۔حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کسی ایسی بات کے متعلق سوال نہ کرو جو فی الواقع پیش نہ آئی ہو کیونکہ میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو اس شخص پر لعنت بھیجتے ہوئے سنا ہے جو اس طرح کے سوالات کرے ۔(اختلافی مسائل میں اعتدال کی راہ، صفحہ 11) یعنی کوئی واقع پیش آنے سے قبل سوال گھڑتا ہے اور اس کی تحقیق کرتا ہے اس پر لعنت، اور ایسا فرضی اور لغو کام ابو حنیفہ اور حنفی کرتے ہیں۔ یعنی اس روایت کوامام ابو حنیفہ پر اور آپ کے اصحاب پر لعنت کو جواز بناتا ہے ، اور ا س لعنت کو صحابی رسول کی طرف منسوب کرتا ہے ۔ اسی طرح چند سوالات کا جواب وہ اس طرح دیتا ہے ، سوال: نعمان بن ثابت کو ا

    جواب نمبر: 48744

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 935-982/N=8/1435-U غیرمقلدین کے نزدیک تو آثار واقوال صحابہ حجت نہیں ہیں، پھر بھی وہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اوران کے اصحاب پر لعنت کے جواز پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کے اقوال سے استدلال کرتے ہیں تعجب کی بات ہے، نیز وہ ہرمسئلہ میں سامنے والے سے صحیح وصریح مرفوع حدیث کا مطالبہ کرتے ہیں اور خود دلائل پیش کرنے میں ہرطرح کی روایات ذکر کردیتے ہیں، اور اپنے اصول کو یکسر نظر انداز کرجاتے ہیں، نیز یہ حضرات دیگر روایات و آثار اور اسلاف امت کی تشریحات سے صرف نظر کرکے اپنے ذاتی فہم سے جو معنی سمجھتے ہیں وہی ان کے نزدیک حق ودرست ہوتا ہے، باقی کسی اورمعنی یا تحقیق کا ان کے نزدیک کوئی اعتبار نہیں ہوتا اگرچہ جمہور علمائے امت کے نزدیک وہی صحیح اور محقق ہو، سوال میں نقل کردہ اثر کے ساتھ یہی صورت حال پیش آئی ہے کیوں کہ یہ غیرمقلد جس معنی کے اعتبار سے حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور ان کے اصحاب پر لعنت کے جواز پر استدلال کرررہا ہے وہ یہاں مراد نہیں ہیں، اس اثر سے وہ فرضی سوالات مراد ہیں جو وقوع کے اعتبار سے محال وناممکن ہوں یا نادر وہ کمیاب ہوں، باقی جو مسائل عموما پیش آتے ہیں یا لوگوں کی فطرت اور ان کی معاشرت وغیرہ کے پیش نظر ان کے پیش آنے کا امکان غالب ہو تو قبل از وقت انھیں حل کرلینا تاکہ عین موقع پر عمل میں کوئی دقت وپریشانی نہ ہو اس میں شرعاً کوئی حرج نہیں ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی اس طرح کے سوالات کیے گئے ہیں اور آپ علیہ السلام نے ان کے جوابات عنایت فرمائے ہیں (تفصیل کے لیے علامہ شیخ عبدالفتاح ابوغدہ حلبی رحمہ اللہ کی کتاب منہج السلف فی السوٴال عن العلم وفي تعلم ما یقع ومالم یقع“ دیکھیں، اس میں اس مسئلہ اور اثر کے تعلق سے تفصیلی بحث کی گئی ہے)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند