• عقائد و ایمانیات >> تقلید ائمہ ومسالک

    سوال نمبر: 32238

    عنوان: امام اعظم نے تقریبا دس صحابہ سے ملاقات كی ہے؟

    سوال: Imame azam ke taabayi hone pr kya daraqutni rehmatullah alai ka ikhtelaf hai.reference neeche hai...maine fatwa id 31522 ke hawale se pehle bhi poocha tha jiska jawab ye aaya ki main apni mansha saaf karu...to hazrat meri mansha ye hai ki mujhe janna hai kya imame azam ke taabayi hone me shak hai kyuki main ek hanafi hu aur ab tak ye manta tha ki imame azam tabayee the...agar wakayi me wo tabayi the to hawala sanad ke saath de aur saath me ye bhi bataye ki kya darakutni rahimullah ka jo reference hai neeche wo galat hai ya sahi hai? ابو الحسن الدارقطنی رحمہ اللہ (جو کہ خطیب بغدادی سے کئی برس قبل یعنی 385 ہجری میں وفات پا چکے تھے ) سے پوچھا گیا کہ کیا امام ابو حنیفہ کا انس (بن مالک رضی اللہ عنہ) سے سماع (سننا) صحیح ہے؟؟؟ تو انہوں نے جواب دیا : نہیں ۔ اور نہ ہی ابو حنیفہ کا انس رضی اللہ عنہ کو دیکھنا ثابت ہے بلکہ ابو حنیفہ نے تو کسی صحابی سے بھی ملاقات نہیں کی ہے ۔ تاریخ بغداد (جلد 4 صفحہ 208 ت 1895 و سندہ صحیح) ۔ سوالات السہمی للدارقطنی (صفحہ 263 ت 383

    جواب نمبر: 32238

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(د): 1041=241-6/1432 دارقطنی کی مذکورہ بات کو علماء محققین اور کبار محدثین نے تسلیم نہیں کیا، چنانچہ حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں: ”أدرک الإمام أبوحنیفة جماعة من الصحابة لأنہ ولد بالکوفة سنة ثمانین من الہجرة وبہا یومئذ من الصحابة عبد اللہ بن أبي أوفی فإنہ مات بعد ذلک بالاتفاق وبالبصرة یومئذ أنس بن مالک ومات سنة تسعین أو بعدہا“ حافظ ابن حجر عسقلانی اس کے بعد فرماتے ہیں: ”فہو بہذا الاعتبار من التابعین“ (سوانح حیات افضل التابعین امام اعظم ابوحنیفہ) علامہ عسقلانی نے بخاری کی شرح میں باب الصلاة فی الثیاب کے تحت بیان فرمایا ہے کہ یہی جمہور کا مسلک ہے، حافظ ذہبی فرماتے ہیں: ”إنہ رأی أنس بن مالک مرارًا“ ابن حجر مکی شرح مشکوٰة میں تحریر فرماتے ہیں: ”أدرک الإمام الأعظم ثمانیة من الصحابة“ جن آٹھ یا دس صحابہ سے امام صاحب نے ملاقات کی ہے، ان کے اسمائے گرامی یہ ہیں: انس بن مالک م:۹۳ھ۔ عبد اللہ ابن ابی اوفی م:۸۷ھ سہل بن سعد م:۸۸ھ ۔ ابو طفیل م:۱۱۰ھ۔ عبد اللہ بن انیس م: ۸۲ھ۔ عبد اللہ بن جزعہ الزبیدی م: ۹۹ھ۔ جابر بن عبد اللہ م: ۹۴ھ۔ عائشہ بنت عجرد واثلہ بن الاسقع م:۸۵ھ ۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ دارقطنی کی مذکور فی السوال رائے انصاف اور تحقیق پر مبنی نہیں ہے۔ طبقات ابن سعد میں ہے: ”فہو بہذا الاعتبار من طبقة التابعین ولم یثبت ذلک لأحد من أئمة الأمصار المعاصرین لہ کالأوزاعي بالشام والحمادَین بالبصرة“ (حماد بن زید، حماد بن سلمة) والثوري بالکوفة ومالک بالمدینة ومسلم بن خالد الزنجي بمکة واللیث بن سعد بمصر۔ علامہ جلال الدین سیوطی نے پورا ایک رسالہ تصنیف فرمایا ہے ”تبییض الصحیفة فی مناقب ابی حنیفة“ اس میں امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے تابعی ہونے کے شواہد اور دلائل نقل کیے ہیں، نیز صحابہٴ کرام سے امام صاحب کی ملاقات ثابت ہے اور ان سے روایات کرنا بھی ثابت ہے، ان صحابہٴ کرام کے اسماء نقل کیے ہیں اور ان روایات کو بھی مع سند کے نقل کیا ہے، اس کتاب کا مطالعہ کرلیا جائے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند