• عقائد و ایمانیات >> تقلید ائمہ ومسالک

    سوال نمبر: 146171

    عنوان: غیر مقلدین امام شعبی

    سوال: غیر مقلدین امام شعبی کے اس قول سے تقلید کا رد کرتے ہیں۔ امام (عامر بن شراحیل) الشعبی (تابعی، متوفی ۱۰۴ ہٹ)گ یہ لوگ تجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جو حدیث بتائیں اسے (مضبوطی سے) پکڑلو اور جو بات اپنی رائے سے کہیں اسے کوڑے کرکٹ میں پھینک دو۔ (مسند الدارمی 206سندہ صحیح) برائے مہربانی اس کا جواب دیں۔

    جواب نمبر: 146171

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 192-757/L=6/1438

    سوال میں امام شعبی رحمہ اللہ کے حوالہ سے جو بات نقل کی گئی ہے وہ یہ ہے ”أخبرنا محمد بن یوسف حدثنا مالک ہو بن مغول قال قال لي الشعبي ما حدثوک عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فخذ بہ وما قالوہ برأیہم فألقہ في الہش“ امام شعبی نے فرمایا یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہوسلم کی جو حدیث بتائیں اسے (مضبوطی سے) پکڑلو اور جو بات اپنی طرف سے کہیں اسے کوڑے کرکٹ میں پھینک دو۔ اس روایت میں یہ ہے کہ جو بات رائے سے کہی جائے وہ ناقابل قبول ہے۔ یہاں یہ سمجھنا چاہیے کہ رائے دو طرح کی ہوتی ہے: (۱) محمود (۲) مذموم۔ جو رائے قرآن وسنت اجماعِ امت اور قیاسِ صحیح کے مطابق ہو وہ رائے محمود ہے اور اس طرح کی رائے کا ثبوت احادیث سے ثابت ہے، حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن کا منصبِ قضا سپرد کرتے وقت آپ نے ارشاد فرمایا اے معاذ! یمن میں جاکر لوگوں کے درمیان فیصلہ کیسے کروگے؟ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا میں کتاب اللہ کو سامنے رکھ کر لوگوں کے فیصلے کروں گا، آپ علیہ السلام نے پوچھا: اگر تجھے وہ مسئلہ کتاب اللہ میں نہ ملے تو حضرت معاذ نے جواب دیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں اس کا حل تلاش کروں گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر دونوں میں نہ ملے تو حضرت معاذ نے فرمایا ”اجتہد برأیی ولا آلو“ میں اپنی رائے سے حل کروں گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ کے سینہ مبارک پر اپنا دست مبارک مارا اور اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے فرمایا! اے اللہ تیرا شکر ہے کہ تونے اپنے نبی کے قاصد سے وہ بات کہلوائی جس سے تیرا پیغمبر خوش ہوگیا ”فضرب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صدرہ، وقال الحمد اللہ الذی وفق رسول رسول اللہ لما یرضی رسول اللہ“ (أبوداود ص۱۴۹باب اجتہاد الرأي في القضا) اسی طرح حضرت ابوبکر وعمر حضرت عبد ا للہ ابن عباس وحضرت عبد اللہ ابن مسعود سے بھی یہی طریقہ مروی ہے کہ وہ اگر کوئی حکم قرآن وسنت میں نہیں پاتے تو پھر قرآن وسنت کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی رائے سے فیصلہ کرتے تھے، دیکھئے (اعلام الموقعین: ۶۲) مستدرک علی الصحیحین: ۴/۹۴، مسند الدارمی، رقم الحدیث: ۱۶۷، سنن النسائی: ۲/۲۶۰، تو جو رائے محمود ہے وہ تو محمود پسندیدہ ہے، ہاں اس کے مقابلے میں ایک رائے مذموم ہے، یعنی ایسی رائے جو قیاس ونصوص کے مقابلے میں ہو اور جس سے نصوص کا رد اور بدعات کی ترویج اور اشاعت لازم آتی ہو ایسی رائے مذموم وقابل رد ہے، فتح المنان جو مسند دارمی کی شرح ہے، اس کا مصنف شیخ ابوعاصم، نبیل بن ہاشم الغمری نے باب فی کراہیة اخذ الرأی کی شرح میں لکھا ہے: وترک ما جائت بہ السنة ․․․ ووجہ ما أوردہ من الأحادیث والآثار أن من أسباب ظہور البدع أخذ الناس في الرأي والہوی، وترکہم للہدي النبوي وما جائت بہ السنة (فتح المنان: ۳/۲۳۸) یعنی ایسی رائے اختیار کرنا ناپسندیدہ ہے جس سے سنت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا چھوڑنا لازم آئے، امام دارمی کے اس باب میں احادیث وآثار لانے کا مقصد یہ بتانا ہے کہ بدعات کی ترویج واشاعت کے اسباب میں سے ایک سبب یہ بھی ہے کہ لوگ رائے (مذموم) اور خواہشات کے پیچھے پڑجائیں اور ہدایت نبوی اور ان امور کو چھوڑدیں جو سنت سے ثابت ہوں۔

    لہٰذا جن روایات میں رائے کو ترک کرنے کا حکم ہے وہاں رائے مذموم مراد ہے، رائے محمود کا ثبوت احادیث صحیحہ سے ثابت ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند