• عقائد و ایمانیات >> تقلید ائمہ ومسالک

    سوال نمبر: 10934

    عنوان:

    میرا سوال یہ ہے کہ جب حدیث موجود ہے تو پھر امام رحمة اللہ علیہ کی ضرورت کیوں پڑتی ہے جیسے دیوبند امام ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ اور اہل حدیث امام شافعی رحمة اللہ علیہ کے مقلد ہیں۔ حوالہ کے ساتھ جواب عنایت فرماویں۔ (۲)اور یہ کہ جب حدیث کے مطابق ایک فرقہ ٹھیک ہوگا تو کون سا فرقہ ٹھیک ہے اور کیوں اگر باقی غلط ہیں تو کیوں خاص طور پر اہل حدیث؟

    سوال:

    میرا سوال یہ ہے کہ جب حدیث موجود ہے تو پھر امام رحمة اللہ علیہ کی ضرورت کیوں پڑتی ہے جیسے دیوبند امام ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ اور اہل حدیث امام شافعی رحمة اللہ علیہ کے مقلد ہیں۔ حوالہ کے ساتھ جواب عنایت فرماویں۔ (۲)اور یہ کہ جب حدیث کے مطابق ایک فرقہ ٹھیک ہوگا تو کون سا فرقہ ٹھیک ہے اور کیوں اگر باقی غلط ہیں تو کیوں خاص طور پر اہل حدیث؟

    جواب نمبر: 10934

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 287=287/م

     

    یہ بات غلط ہے کہ اہل حدیث، امام شافعی رحمہ اللہ کے مقلد ہیں، وہ کسی امام کی تقلید نہیں کرتے، ہاں نفس کے متبع ضرور ہیں۔ رہا یہ سوال کہ حدیث کے موجود ہوتے ہوئے تقلید امام کی ضرورت کیوں ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ دین اسلام کے بہت سے امور تو ایسے ہیں جن میں نہ کسی کا اختلاف ہے، نہ اختلاف کی گنجائش ہے، لیکن بہت سے امور ایسے ہیں کہ ان کا حکم صاف قرآن یا حدیث میں مذکور نہیں، ایسے امور کا شرعی حکم دریافت کرنے کے لیے گہرے علم، وسیع نظر، اور اعلی درجہ کی دیانت وامانت درکار ہے، یہ چاروں ائمہ (امام ابوحنیفہ، امام شافعی، امام مالک اور امام احمد رحمہم اللہ) ان اوصاف میں پوری امت کے نزدیک معروف و مسلم تھے، اس لیے ان کے فیصلوں کو بحیثیت قانون کے تسلیم کیا جاتا ہے۔ جس طرح کہ عدالت عالیہ کی تشریح قانون مستند ہوتی ہے، اس لیے یہ تصور صحیح نہیں کہ لوگ اللہ ورسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے بجائے ان بزرگوں کی اطاعت کرتے ہیں، بلکہ صحیح یہ ہے کہ اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات کی جو تشریح ان بزرگوں نے فرمائی ہے اس کو مستند سمجھتے ہیں، قانون کی تشریح کو کوئی عاقل، قانون سے انحراف نہیں سمجھا کرتا، اور قانون کی فہم وتشریح کے لیے جس علمی بصیرت اور اجتہادی شان کی ضرورت ہے، وہ عام لوگوں میں موجود نہیں، اور ان چاروں ائمہ میں بوری طرح موجود ہے، اس لیے تقلید کی ضرورت پڑتی ہے۔

    (۲) جو فرقہ صحیح ہوگا وہ وہ ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کے طریقے پر قائم ہوگا، حدیث میں ہے: ما أنا علیہ وأصحابي اور علیکم بسني وسنة الخلفاء الراشدین المھدیین، حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کے طریقے کے علاوہ پر جو چلے گا وہ غلط ہوگا، اہل حدیث صحابہ کے طریقے پر قائم نہیں، اس لیے وہ راہِ اعتدال اور صراط مستقیم سے ہٹے ہوئے ہیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند