معاشرت >> طلاق و خلع
سوال نمبر: 171916
جواب نمبر: 171916
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:964-114T/N=12/1440
اگر سوال نامہ کے ساتھ طلاق نامہ کی نقل عکسی بھی ارسال کی جاتی تو بہتر تھا، ویسے صورت مسئولہ میں چوں کہ شخص مذکور نے طلاق نامہ میں صاف صاف تین مرتبہ طلاق دینے کے الفاظ لکھے یا لکھوائے ہیں اور طلاق نامہ کے صریح الفاظِ طلاق، زبان سے ادا کیے ہوئے الفاظ صریحہ ہی کی طرح ہوتے ہیں اور عام حالات میں ان میں بھی ڈرانے، دھمکانے کی نیت معتبر نہیں ہوتی؛ اس لیے شخص مذکور کی بیوی پر بلاشبہ تین طلاقیں واقع ہوگئیں، وہ اس پر حرام ہوگئی اور اب حلالہ شرعی سے پہلے کسی صورت میں وہ دوبارہ اس کے نکاح میں نہیں جاسکتی۔
ولا یحتاج إلی النیة فی المستبین المرسوم، ولا یصدق فی القضاء أنہ عنی تجربة الخط، بحر (رد المحتار، کتاب الطلاق، قبیل باب الصریح، ۴: ۴۵۵، ۴۵۶، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، إما مستبین مرسوم أي: معنون مصدر مثل ما یکتب في أولہ : من فلان إلی فلان أو یکتب إلی فلان وفي آخرہ من فلان علی ما جرت بہ العادة (مجمع الأنھر مع الدر المنتقی، ۴: ۴۷۴، ط: دار الکتب العلمیة بیروت)، مستبین مرسوم وھو أن یکون معنوناً أي: مصدراً بالعنوان، وھو أن یکتب في صدرہ: ”من فلان إلی فلان“ علی ما جرت بہ العادة، فھذا کالنطق فلزم حجة (رد المحتار ۱۰: ۴۶۰، ۴۶۱، ط: مکتبة زکریا دیوبند، عن التبیین)، فإن کان علی وجہ الرسم لا یحتاج إلی النیة ولا یصدق فی القضاء أنہ عنی تجربة الخط، ورسمھا أن یکتب بسم اللہ الرحمن الرحیم أما بعد! إذا وصل إلیک کتابي فأنت طالق ………وإن کان لا علی وجہ الرسم نحو أن یکتب إن جاء کتابي ھذا فأنت طالق فھذا ینوی (البحر الرائق، کتاب الطلاق، ۳: ۴۳۳، ۴۳۴، ط: مکتبة زکریا دیوبند)،والحاصل أن الأول- المستبین المرسوم- صریح الخ (رد المحتار، کتاب الخنثی، مسائل شتی، ۱۰: ۴۶۱)، قال اللّٰہ تعالی:فإن طلقھا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجاغیرہ الآیة(سورة البقرة، رقم الآیة،۲۳۰)،وجاء عند أبي داود في سننہ في روایة عیاض بن عبد اللہ الفھري وغیرہ عن ابن شھاب عن سھل بن سعدقال:فطلقھا ثلاث تطلیقات عند رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، فأنفذہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم،وکان ما صنع عند النبي صلی اللہ علیہ وسلم سنة (سنن أبي داود،کتاب الطلاق،باب فی اللعان ص۳۰۶،ط:المکتبة الأشرفیة، دیوبند)،وصححہ الشوکاني کما فی نیل الأوطار لہ (کتاب اللعان،باب لا یجتمع المتلاعنان أبداً ۱۲:۵۱۴، ط: دار ابن الجوزي للنشر والتوزیع)، وأما الطلقات الثلاث فحکمھا الأصلي ھو زوال الملک وزوال حل المحلیة أیضاً حتی لا یجوز لہ نکاحھا قبل التزوج بزوج آخر لقولہ عز وجل: ﴿فإن طلقھا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجاً غیرہ﴾ وسواء طلقھا ثلاثا متفرقاً أو جملة واحدة الخ (بدائع الصنائع ۳: ۲۹۵، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، وإن کان الطلاق ثلاثاً فی الحرة…لم تحل لہ حتی تنکح زوجا غیرہ نکاحا صحیحا ویدخل بھا ثم یطلقھا أو یموت عنھا کذا فی الھدایة (الفتاوی الھندیة، کتاب الطلاق،باب فی الرجعة، فصل في ما تحل بہ المطلقة وما یتصل بہ۱: ۴۷۳، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند