معاشرت >> طلاق و خلع
سوال نمبر: 156813
جواب نمبر: 156813
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:322-47T/sn=4/1439
(۱) زید نے والدین کی طرف سے منع کرنے کے باوجود اس لڑکی سے نکاح کرکے ایک ناپسندیدہ کام کیا، اسے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا؛ بہرحال جب نکاح کرلیا ہے تو اب زید کو طلاق دینے میں جلدی نہیں کرنی چاہیے؛ بلکہ اسے چاہیے کہ والدین کے ساتھ معافی تلافی کرکے انھیں خوش کرلے اور اللہ سے دعائیں بھی کرے کہ اللہ انھیں زید کے تئیں خوش کردے، اگر زید اخلاص کے ساتھ کوشش کرے گا تو ان شاء اللہ والدین خوش ہوجائیں گے۔
(۲) زید کے اس عمل کی وجہ سے والدین کا اسے اپنی جائیداد سے محروم کردینا شرعاً درست نہیں ہے، اگر والدین عدالتی کاروائی وغیرہ کے ذریعے زید کو ”عاق“ یعنی جائداد سے مرحوم کردیں گے پھر بھی زید شرعاً محروم نہ ہوگا؛ بلکہ والدین کی وفات کے بعد زید بھی دیگر ورثاء کی طرح والدین کی جائداد میں حق دار ہوگا۔
(۳) ہندوستان میں برادری اور پیشہ وغیرہ کے اعتبار سے ”کفو“ کا اعتبار ہے؛ لیکن ”کفو“ لڑکی کے نکاح کے وقت دیکھا جاتا ہے یعنی اگر لڑکی اپنے ”ولی“ کی رضامندی کے بغیر غیر کفومیں نکاح کرلے تو لڑکی کے ”ولی“ مثلاً والد، اگر نہ ہو تو دادا یا چچا کو اعتراض کا حق حاصل ہے وہ اگر چاہیں تو شرعی پنچایت میں درخواست دے کر حسب ضابطہ نکاح فسخ کراسکتا ہے، لڑکی کے نکاح میں شرعاً کفاء ت کا اعتبار نہیں ہے، یعنی لڑکا اگر اپنے والدین کی رضامندی کے بغیر غیر کفو لڑکی سے اس کے ولی کی اجازت سے نکاح کرلے تو شرعاً اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اس پر والدین کو حق اعتراض حاصل نہیں ہے؛ اس لیے صورتِ مسئولہ میں زید کے والدین کے لیے محض غیربرادری کی لڑکی سے نکاح کرنے کی بنا پر زید کو طلاق دینے پر مجبور کرنا درست نہیں ہے۔ باقی یہ بات تو بہرحال محمود ہے کہ آدمی نکاح کا اقدام والدین کے مشورہ اور ان کی رضامندی ہی سے کرے، اسی میں زیادہ برکت کی امید ہے۔ الکفاء ة معتبرة في ابتداء النکاح․․․ من جانبہ․․․ لا من جانبہا إلخ (درمختار مع الشامي: ۴/ ۲۰۷، ط: زکریا)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند