• معاشرت >> طلاق و خلع

    سوال نمبر: 156436

    عنوان: میرے میاں نے 2007 میں باقاعدہ لفظ "طلاق دیتا ہوں بولا" لیکن بعد میں رجوع کر لیا

    سوال: کیا فرماتے ہیں علماء اس مسئلہ کے بارے میں میرے میاں نے 2007 میں باقاعدہ لفظ "طلاق دیتا ہوں بولا" لیکن بعد میں رجوع کر لیا ۔ میرے میاں کئی سال سے سعودی عرب میں مقیم ہیں۔ آخری بار وہ 20017 میں پاکستان سے گئے تھے ۔ اور فروری 2017 سے جون 2017 کے درمیان متعدد بار وہ مجھے فون پر یہ کہہ چکے ہیں کہ "تم میری طرف سے فارغ ہو جب اپنی والدہ کے گھر جانا ہے جا سکتی ہو"۔ جون 2017 سے اب تک صرف ان سے دو بار فون پر بات ہوئی ہے وہ بھی بچوں کے کسی مسئلے کے سلسلے میں۔ اس کے علاوہ ان کا اور میرا کوئی رابطہ نہیں ہے ۔ اب میرا سوال یہ ہے کہ ان الفاظ سے طلاق واقع ہوئی یا نہیں اور اگر طلاق واقع ہوئی ہے تو اب ہمارا آپس میں رجوع ہو سکتا ہے یا نہیں؟ برائے مہربانے جلد جواب ارسال فرما دیں۔

    جواب نمبر: 156436

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:215-180/D=3/1439

    جب شوہر نے کہا تھا ”طلاق دیتا ہوں“ تو اس جملے سے ایک طلاق رجعی پڑگئی تھی، اور عدت کے اندر رجوع کرنے سے نکاح برقرار رہ گیا تھا، اس کے بعد، اس کے بعد شوہر کا یہ جملہ ”تم میری طرف سے فارغ ہو، جب اپنی والدہ کے گھر جانا چاہو جاسکتی ہو“ طلاق کے الفاظِ کنائی میں سے ہے، اگر اس سے شوہر نے طلاق دینے کی نیت کی ہوگی تو ایک طلاق بائن پڑجائے گی، اور رشتہٴ نکاح بالکلیہ منقطع ہوجائے گا، دوبارہ اس جملے کو دہرانے سے مزید کوئی طلاق نہیں پڑے گی، اور اب دوبارہٴ رشتہٴ زوجیت قائم کرنے کے لیے طرفین کی رضامندی سے تجدید نکاح کرنا ہوگا جس کے بعد شوہر کو صرف ایک طلاق کا اختیار باقی رہے گا، یعنی اب اگر شوہر ایک طلاق بھی دے گا، تو عورت حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوجائے گی۔ وفي الدر المختار: لا یلحق البائنُ البائنَ وقال تحتہ في الشامیة: المراد بالبائن الذي لا یلحق ہو ما کان بلفظ الکنایة، لأنہ ہو الذي لیس ظاہرًا في إنشاء الطلاق، کذا في الفتح (الشامیة: ۴/۵۴۲)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند