• معاشرت >> طلاق و خلع

    سوال نمبر: 150860

    عنوان: مستقبل ميں دی گئی طلاق كا حكم؟

    سوال: مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں: میاں بیوی میں مذاکرہ طلاق ہوا، بیوی نے مطالبہ طلاق کیا تو شوہر نے کہا اچھا اس دفعہ ایام مخصوصہ (حیض) سے ایک دن پہلے طلاق دیتا ہوں، کیا استقبال کے مفہوم کے پائے جانے کی وجہ سے طلاق ہو گئی؟

    جواب نمبر: 150860

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 1070-1092/L=9/1438

    صورت مسئولہ میں عورت پر حیض آنے سے ایک دن پہلے ایک طلاق رجعی واقع ہوجائے گی۔ بظاہر یہ محض وعدہٴ طلاق اور طلاق کی دھمکی کے الفاظ نہیں ہیں؛ بلکہ شوہر نے حیض آنے سے ایک دن پہلے طلاق کو منسوب کیا ہے؛ لہٰذا حیض آنے سے ایک دن پہلے بیوی پر طلاق واقع ہوجائے گی۔

    قال فی البدائع: وإذا قال أنت طالق فی حیضک أو مع حیضک فحیثما رأت الدم تطلق بشرط أن یستمر ثلاثة أیام لأن کلمة فی للظرف والحیض لا یصلح ظرفا فیجعل شرطا وکلمة مع للمقارنة، فإذا استمر ثلاثا تبین أنہ کان حیضا من حین وجودہ فیقع من ذلک الوقت، ولو قال: فی حیضتک فما لم تحض وتطہر لا تطلق لأن الحیضة اسم للکامل وذلک باتصال الطہر بہا، ولو کانت حائضا فی ہذہ الفصول کلہا لا یقع ما لم تطہر وتحیض أخری لأنہ جعل الحیض شرطا للوقوع والشرط ما یکون معدوما علی خطر الوجود وہو الحیض المستقبل لا الموجود فی الحال اہ. قلت: وینبغی الوقوع لو نوی فی مدة حیضک الموجود تأمل۔ (شامي: ۷۸/۴، باب صریح الطلاق، ط: زکریا دیوبند)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند