• معاشرت >> طلاق و خلع

    سوال نمبر: 148962

    عنوان: بچے نہ ہونے کی وجہ سے طلاق دینے پر اقدام کرنا ؟

    سوال: میری شادی کو ڈھائی سال ہو گئے اور ابھی تک کوئی بچہ نہیں ہوا ، میڈیکل رپورٹ کے مطابق اس کو کوئی بیماری ہے جس کا آپریشن کیا جائے گا پھر بھی کوئی گارنٹی نہیں ہے، اور یہ بیمار لڑکی کے گھر والوں نے ہم سے چھپائی تھی،یہ لوگ اس کا علاج بہت پہلے سے کرا رہے تھے پر اب نہ تو یہ دوا کروا رہے ہیں، اور جب میں آپریشن کے لیے تیار ہوں تو کسی طرح کی کوئی ذمہ داری نہیں لینا چاہتے، اگر لڑکی کو کچھ ہوا تو مطلب لڑکی کا علاج اب میں کروا رہا ہوں اور دوا سے کوئی فائدہ نہیں ہوا ہے آپریشن ہوگا، اور ڈاکٹر نے اس کی کوئی گارنٹی نہیں لی کہ بچے اس کے بعد ہوں گے یا نہیں، میرے سسرال والے اس کی کوئی ذمہ داری بھی نہیں لے رہے ہیں اور نہ کوئی علاج کے لیے آگے آرہا اور میرے سسرال کا بیک گراوٴنڈ بھی بہت ہی نیچ ہے، ڈھائی سال میں ایک بار بھی گھر پر لڑکی سے ملنے نہیں آئے، اب ہم ایسے میں کیا کریں؟بہت پریشان کیا ہے ان لوگوں نے، یہاں تک کہ لڑکی والوں نے مجھے مارنے کی بھی دھمکی دی گئی ہے۔ برائے مہربانی اس کا کوئی حل بتائیں، مجھے اگر طلاق دینی ہو تو کیسے؟ میرے پاس اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔

    جواب نمبر: 148962

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 656-613/H=6/1438

    جو حالات آپ نے لکھے ہیں ان کے پیش نظر طلاق دینے میں جلدی کرنا مصلحت کے خلاف معلوم ہوتا ہے اور محض بچے نہ ہونے کی وجہ سے طلاق دینے پر اقدام کرنا ناپسندیدہ ہے، آپ اپنی حیثیت کے مطابق علاج معالجہ کراتے رہیں اور ساتھ ساتھ خصوصی دعاوٴں کا اہتمام بھی جاری رکھیں، کسی ماہر معالج طبیب (حکیم) سے رجوع کرلینا امید ہے زیادہ بہتر رہے گا۔ الغرض اس ایک نقص کے علاوہ بیوی اپنے اوصافِ حمیدہ کے لحاظ سے ٹھیک ٹھاک ہے تو محض اس غیر اختیاری نقص (بیماری) کی وجہ سے طلاق دینا شرعاً وعقلاً پسندیدہ نہیں ہے، چاہے آپ کی سسرال والوں کی طرف سے بے توجہی بھی ہے تب بھی صبر وضبط سے کام لیں اور دل نہ چاہنے کے باوجود اپنی طرف سے بیوی کے ساتھ حسن معاشرت سے گذر بسر میں کچھ کمی نہ کریں ان شاء اللہ کوئی راستہ سہولت وعافیت کا اللہ پاک جلد پیدا فرمادے گا وَمَنْ یَتَّقِ اللَّہَ یَجْعَلْ لَہُ مَخْرَجًا(پ:۲۸) (القرآن الکریم سورة الطلاق) اور آئندہ جو بھی قدم اٹھائیں اس میں اپنے گھر والوں نیز اعزہ اقرباء اورمقامی علمائے کرام سے پہلے مشورہ کرکے پھر کوئی مناسب حل تلاش کریں، بسااوقات طلاق دیدینے کی صورت میں موجودہ پریشانیوں سے زیادہ بھاری پریشانیاں کھڑی ہوجاتی ہیں کہ جن سے چھٹکارہ بھی آسان نہیں رہتا ، اگر بمشورہ طلاق دیدینا ہی طے ہوجائے تو صرف ایک طلاق دیں، ایک سے زائد ہرگز نہ دیں اور طلاق ایک بھی دینے سے قبل تمام معاملات کو صاف کرلیں تاکہ بعد میں کوئی نزاع نہ پیش آئے۔

    اگر حصولِ اولاد کے لیے پہلی بیوی کے رہتے ہوئے دوسرا نکاح کرلیں تو ایسا بھی کرسکتے ہیں؛ بلکہ پہلی بیوی کو طلاق دینے سے یہ بہتر صورت ہے۔ (ل)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند