• معاشرت >> طلاق و خلع

    سوال نمبر: 146381

    عنوان: طلاق کے الفاظ زبان سے کہنے میں شک؟

    سوال: جناب گزارش ہے کہ بندہ کو وسوسے آتے ہیں۔ بندہ نے قسم کھالی کہ بندہ سعودی عرب کی ویب Alfalfa.org.net نہ کھولے گا اگر بندہ نے مذکورہ ویب کھولی تو بندہ کی ہونے والی بیوی کو تین طلاق۔ جناب بندہ کو یاد ہے کہ بندہ نے یہ الفاط دماغ میں ادا کیے اور جذباتی کیفیت ہونے کی وجہ سے زبان نے بغیر آواز نکالے الفاظ کی تائید میں حرکت کی کیوں کہ اس وقت کمرہ میں جہاں بندہ اپنے بستر پر لیٹا تھا اور پریشان تھا بندہ کو ایک اور شخص جو کہ پانچ سے ۷ فٹ کے فاصلے پر تھا دیکھ رہا تھا کہ بندہ پریشان کیوں ہے ۔ اس لیے الفاظ دل میں ادا کئے اور زبان کو صرف حرکت دی اس کے بعد گمان ہوا کہ کہیں یہ کام عادت نہ بنا لوں اس لئے بندہ نے پہلے کی طرح دل میں کہا کہ اگر میں نے دوبارہ اس طرح کی قسم رکھی جس میں ۳ مشروط طلاق ہوں تو پھر میری ہونے والی بیوی کو تین طلاق جناب اس کے بعد میں سو گیا۔ اور مزید پریشان ہوا اب بھی ہوں۔ مجھے غالب گمان ہے کہ میرے یہ الفاط دل میں تھے بلکہ یقین ہے ۔ لیکن شک آتا ہے کہ کہیں الفاظ زبان سے تو نکل گئے ۔ اب یہ بھی پریشانی ہے کہ کہیں بھول کہ ویب نا کھول بیٹھوں ۔ ایک فتوی میں پڑھا ہے کہ الفاط اتنے اونچے ہوں کہ کم از کم ساتھ والا سن لے ساتھ والے کا فاصلہ کتنا ہو۔ اور یہ شک کافی بعد میں پیدا ہو کہ میں نے الفاظ کہیں اونچے تو نہ کہہ دیئے ۔ جبکہ پورے تسلی ہو گئی تھی کہ دل میں طلاق سے طلاق نہیں ہوتی۔ مجھے وہم کی عادت ہے ۔

    جواب نمبر: 146381

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 228-218/M=2/1438

    یقین شک سے زائل نہیں ہوتا اور شک پر حکم نہیں لگتا، صورت مسئولہ میں جب یقین ہے کہ تعلیق طلاق کے الفاظ صرف دل میں کہے تھے تو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، اس سے کچھ نہیں ہوا، شک و شبہ میں نہ پڑیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند