• عبادات >> طہارت

    سوال نمبر: 146831

    عنوان: تیمم كا طریقہ؟

    سوال: (۱) براہ کرم، تیمم کے طریقے بارے میں تفصیل سے بتائیں۔ کونسی چیزوں پر ہاتھوں سے ضرب لگایا جائے؟جیسے گلاس، (جس میں دھول ہو)۔ کیا زمین پر دھول کے اجزاء کا ہونا ضروری جس پر ہاتھوں کاضرب لگایا جائے ؟ (۲) صورت حال یہ ہے کہ میں بس میں ہوں، مناسب بارش ہورہی ہے اور فرض نماز کا وقت ختم ہونے والا ہے، میرا وضو نہیں ہے، بارش کا پانی موجود ہے جس کو بس کی کھڑکی سے باہر ہاتھوں سے نکال لیا جاسکتاہے،میں وضو کرنے کی کوشش کرتاہوں، اس طرح سے بارش کا پانی لینامشکل ہے مگر اب بھی میں پانی لینے کی کوشش کرتاہوں جتنا کہ لے سکتاہوں،اور وضو کے اعضاء کو تر کرتاہوں،لیکن یقین نہیں ہوتاہے کہ مکمل طورپر بھیگ/تر ہو گیاہے ،تو کیا اس طرح سے میں وضو کر کے نماز پڑھ سکتاہوں؟

    جواب نمبر: 146831

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 293-267/D=4/1438

    تیمم کا طریقہ یہ ہے کہ پاکی حاصل کرنے کی نیت سے دونوں ہاتھوں کو پاک مٹی پر پھیر کر ان کو جھاڑدیں اور اچھی طرح منھ پر مل لیں اس طور پر کہ ایک بال برابر بھی ہاتھ پہنچنے سے رہ نہ جائے پھر دوبارہ مٹی پر ہاتھ مارکر کہنیوں تک دونوں ہاتھوں پر بھی اسی طرح مل ملیں۔ تیمم پاک مٹی سے ہوتا ہے یا جوچیز مٹی کی جنس سے ہو مثلاً چونا، پتھر، اینٹ وغیرہ۔ گلال، لکڑی لوہا جیسی چیزوں سے تیمم نہیں ہوگا، ہاں اگر ان چیزوں پر گرد ہو اس پر ہاتھ مارکر تیمم کرلیا تو تیمم درست ہوجائے گا، اور اگر گرد نہیں ہے تو تیمم درست نہیں ہوگا، نیز زمین میں دھول کے اجزاء کا ہونا ضروری نہیں: وکیفیة التیمم أن یضرب یدیہ علی الأرض، یقبل بہما ویدبر، ثم یرفعہما وینفض، کذا في ۔التبیین۔ بقدر ما یتناثر التراب، کذا في ”الہدایة“ ویمسح بہما وجہہ بحیث لا یبقی منہ شيء، ثم یضرب یدیہ علی الأرض، کذلک ویمسح بہما ذراعیہ إلی المرفقین، کذا في ”التبیین“․ (ہندیة: ۱/۸۳)․ قال أبو حنیفة ومحمد: یجوز التیمم بکل ما ہو من جنس الأرض، وعن أبي یوسف روایتان في روایة بالتراب والرمل وفي روایة لا یجوز إلا بالتراب خاصة وہو قولہ الآخر ذکرہ القدوري (بدائع: ۱/۱۸۱)

    (۲) صورت مسئولہ میں جب تک اعضاء وضو مکمل طور پر بھیگ نہ جائیں اور ایک دو قطرے ٹپک نہ پڑیں تب تک وضو مکمل نہیں ہوگا اور جب وضو مکمل نہیں ہوا تو اس طرح نماز پڑھنا بھی درست نہیں ہے، لہٰذا سوال میں مذکور ادھورے طریقہ پر وضو کرکے نماز پڑھنا تو صحیح نہیں ہے؛ لیکن کبھی شک وشبہ کے ساتھ پڑھ لیا یا بس کی سیٹ پر بیٹھ کر نماز ادا کی تو بعد میں جائے قیام پر پہنچ کر اس نماز کی قضا کرنا واجب ہے۔ وفي شرح الطحطاوي أن تسیل الماء شرط في الوضوء في ظاہر الروایة․ فلا یجوز الوضوء ما لم یتقاطر الماء، وعن أبي یوسف رحمہ اللہ أن التقاطر لیس بشرط․ (ہندیة: ۱/۵۳)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند