• معاملات >> شیئرز وسرمایہ کاری

    سوال نمبر: 59838

    عنوان: سرمایہ کاری کے لیے خریدے گئے پلاٹ پر زکاة ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو کب ادا کی جائے گی؟ فروخت پر یا ایک سال گذرنے پر ؟ فوری طورپر اس سے کوئی آمدنی نہیں آرہی ہے۔براہ کرم، جواب دیں۔ شکریہ

    سوال: سرمایہ کاری کے لیے خریدے گئے پلاٹ پر زکاة ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو کب ادا کی جائے گی؟ فروخت پر یا ایک سال گذرنے پر ؟ فوری طورپر اس سے کوئی آمدنی نہیں آرہی ہے۔براہ کرم، جواب دیں۔ شکریہ

    جواب نمبر: 59838

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 720-711/N=8/1436-U (۱) جی ہاں! سرمایہ کاری یعنی: فروخت کرنے کی نیت سے خریدے گئے پلاٹ پر زکات ہوتی ہے، ہرسال اس کی زکاة ادا کرنی ہوگی، البتہ اگر آئندہ بیچنے کی نیت نہیں رہی؛ بلکہ کسی کو ہبہ کرنے کی نیت ہوگئی یا مکان بناکر رہنے یا کرایہ پر دینے کی نیت ہوگئی تو اس کے بعد اس پر زکاة نہ ہوگی؛ کیونکہ اب وہ مال تجارت نہیں رہا، اسی طرح اگر کوئی پلاٹ اس نیت سے خریدا کہ نفع ملا تو بیچ دیں گے نہیں تو مکان یا دکان پر کرایہ پر دیدیں گے یا آئندہ اس کے بارے میں سوچیں گے یعنی: حتمی طور پر بیچنے کی نیت سے نہیں خریدا تو وہ مالِ تجارت نہیں؛ لہٰذا اس پر بھی زکاة نہیں آئے گی کذا في الدر والرد (۳:۱۹۲- ۱۹۵ ط مکبتہ زکریا دیوبند) (۲) سال مکمل ہونے پر، البتہ اگر آدمی پہلے سے صاحب نصاب ہو یعنی: اس کے پاس بقدر نصاب سونا، چاندی، کرنسی یا کوئی دوسرا مال تجارت ہو تو اس کے لیے الگ سے سال کا حساب لگانے کی ضرورت نہیں؛ بلکہ جب پہلے سے موجود نصاب کا سال مکمل ہوگا تو اس کا بھی سال مکمل سمجھا جائے گا اور دیگر نصاب کے ساتھ اس کی بھی زکاة واجب ہوجائے گی کذا فی الدر والرد (۳: ۲۱۴) اور زکاة کی ادائیگی میں پلاٹ کی فروختگی کا انتظار نہ کیا جائے؛ بلکہ سال مکمل ہونے کے بعد جلد از جلد زکاة ادا کردی جائے اور اگر دوسرا سال بھی مکمل ہوگیا، زکاة ادا نہیں کی تو گنہ گار ہوگا۔ اور اگر آدمی کے پاس کوئی آمدنی نہ ہو تو ادائیگی زکاة میں پلاٹ کا کچھ حصہ فروخت کردے یا کوئی اور سامان وغیرہ فروخت کرکے زکاة اد کرے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند