• معاملات >> شیئرز وسرمایہ کاری

    سوال نمبر: 59348

    عنوان: شرکت کی بنیادی شرائط

    سوال: میں یہ پوچھنا چاہوں گا کہ ایک شخص بزنس کررہا ہے اور دوسرا شخص اس بزنس میں شریک ہونا چاہتاہے مگر پہلے شخص کا کہنا ہے کہ صرف تم پیسے دو مثلاً ایک لاکھ روپئے اور پھر وہ ہر مہینہ 2000روپئے دیتا رہے گا ، وہ تمام نقصان اور نفع برداشت کرے گا ، کیوں کہ پہلا شخص 10000 سے زیادہ کماتاہے اگرخراب حالات پیش آتے ہیں تو پہلا شخص کچھ ادا نہیں کر ے گا ، تو کیا یہ پیسے لینے کا درست طریقہ ہے؟

    جواب نمبر: 59348

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 499-464/Sn=7/1436-U

    مذکور فی السوال طریقے پر کسی کے ساتھ کاروبار میں شرکت کرنا شرعاً جائز نہیں ہے، ایک لاکھ روپے دے کر ماہانہ ایک متعینہ رقم مثلاً دو ہزار بہ نام منافع لینا درحقیقت سودی معاملہ ہے جو قطعاً جائز نہیں ہے، اگر دونوں شرکت کی بنیاد پر کاروبار کرنا چاہتے ہیں تو ان پر ضروری ہے کہ شرائط شرکت کو ملحوظ رکھتے ہوئے ”عقد شرکت“ کا معاملہ کرین، شرکت کی بنیادی شرائط یہ ہیں: (۱) منافع حصہٴ مشاع (مثلاً جو کچھ نفع ہوگا اس کا نصف، تہائی) کے طور پر طے ہو، متعین رقم کی شکل میں منافع طے کرنا جائز نہیں ہے، منافع باہم رضامندی سے کسی بھی تناسب سے طے کیا جاسکتا ہے، البتہ اتنا لحاظ ضرور ی ہے کو جو شخص صرف رقم سے شریک ہو، ”عمل“ اس کے ذمے نہ ہو تو اس کے منافع سرمایہ کے تناسب سے زیادہ متعین کرنا درست نہیں ہے۔ (۲) بہ وقتِ عقد دونوں کا سرمایہ معلوم ہو، اور نقد کی شکل میں ہو اگر اثاثہ یا سامان کی شکل میں ہوگا تو شرکت صحیح نہیں ہے؛ ہاں اگر دو فریقوں میں سے ایک کے پاس نقد روپئے اور دوسرے کے پاس سامان ہے اور وہ شرکت کرنا چاہیں تو یہ حیلہ اختیار کرسکتے ہیں کہ سامان کا مالک اپنا آدھا سامان دوسرے کو اس کے نصف روپئے کے عوض فروخت کردے اور دونوں قبضہ کرلیں، پھر تمام روپئے اور سامان کو ملادیا جائے تو روپئے اور سامان دونوں کے درمیان مشترک ہوجائیں گے، پھر اس میں عقد شرکت کرلیں تو جائز ہوگا۔ (۳) اگر کبھی خسارہ ہوجائے تو تمام شرکاء کو بقدر سرمایہ برداشت کرنا ہوگا، خسارہ کو ایک پر ڈالنا شرعاً جائز نہیں ہے۔ منہا (شرائط جواز الشرکة) أن یکون الربح معلوم القدر․․․ وأن یکون جزء ًا شائعًا في الجملة لا معینا․․․ أما الشرکة بالأموال فلہا شروط، منہا أن یکون رأس المال من الأثمان المطلقة․․․ وہي الدراہم والدنانیر عنانًا کانت الشرکة أو مفاوضة․․․ولو کان من أحدہما دراہم ومن الآخر عروض فالحیلة فی جوازہ أن یبیع کل واحد منہما نصف مالہ بنصف دراہم صاحبہ ویتقابضاویخلطا جمیعًا حتی تصیر الدراہم بینہما والعروض بینہما ثم یعقدان علیہما عقد الشرکة فیجوز (بدائع الصنائع: ۵/۷۷، ط: زکریا دیوبند)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند