• معاملات >> شیئرز وسرمایہ کاری

    سوال نمبر: 488

    عنوان:

    کاپی رائٹ (حقوق محفوظ) کا کیا حکم ہے؟

    سوال:

    کاپی رائٹ (حقوق محفوظ) کا کیا حکم ہے؟

    جواب نمبر: 488

    بسم الله الرحمن الرحيم

    (فتوى: 497/ب=479/ب)

     

    یہ مسئلہ علمائے کرام کے درمیان مختلف فیہ ہے۔ کچھ حضرات یہ فرماتے ہیں کہ یہ حقوق مجردہ میں سے ہے، اس لیے اس کا عوض لینا یعنی اسے فروخت کرنا جائز نہیں۔ جب کہ دوسرے علمائے کرام یہ فرماتے ہیں کہ ابوداوٴد شریف کی حدیث ہے حضرت اسمر بن مضرس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان کے دست مبارک پر بیعت ہوا، تو آپ نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے کسی چیز کی طرف سبقت کی جس کی طرف کسی مسلمان نے سبقت نہیں کی تو وہ چیز اس کی ہے۔ (أبوداوٴد: ص۲۶۴، في الخراج قبیل إحیاء الموات)علامہ مناوی نے اسکا مصداق افتادہ زمین کو قابل کاشت بنانا لکھا ہے۔ پھر اس کے بعد یہ بھی لکھا ہے کہ بعض علماء یہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث ہرچشمے، کنویں اور معدن کو بھی شامل ہے۔ (فیض القدیر: ص۱۳۸،ج۶) لیکن یہاں حق تصنیف، حق اشاعت کے ساتھ جب اس حق کا رجسٹریشن کرالیا گیا ہو جس کے لیے مصنف کو محنت، وقت، اورمال سب ہی خرچ کرنا پڑتا ہے اور اس کی وجہ سے یہ ایک قانونی حق ہوجاتا ہے اور یہ قیمتی مال شمار کیا جاتا ہے، لہٰذا اس رجسٹرڈ حق کو مروجہ عرف کی بناء پر اعیان و اموال کے حکم میں اس کی بیع کو جائز قرار دیتے ہیں۔ حضرت مولانا فتح محمد صاحب لکھنوی، حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ صاحب دہلوی، مفتی نظام الدین صاحب مفتی دارالعلوم دیوبند، مفتی عبدالرحیم صاحب لاجپوری اور حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب اسی کے قائل ہیں۔ اور مال کے بدلہ میں اس حق سے دست بردار ہوجانا تو تقریباً سب ہی ائمہ کے نزدیک جائز ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند