معاملات >> شیئرز وسرمایہ کاری
سوال نمبر: 160028
جواب نمبر: 160028
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:795-709/sn=8/1439
شیرز کا کام مطلقاً ناجائز نہیں ہے؛ بلکہ اگر کسی کمپنی کا بنیادی کاروبار حلال ہے اور وہ کمپنی خارج میں مع اثاثہ وجود میں بھی آچکی ہے تو اس کے شیرز خریدکر نفع کے ساتھ آگے فروخت کرکے پیسہ کمانا شرعاً جائز ہے، بس شرط یہ ہے کہ جس شخص سے شیئرز خریدے جائیں اس کے حق میں ان کی ڈلیوری ہوچکی ہو اسی طرح کہ مشتری بھی آگے فروخت کرنے میں اس شرط کو ملحوظ رکھے ورنہ بیع قبل القبض ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے، اگر شیرز خریدنے کا مقصد کمپنی کے اصل منافع میں شریک ہونا ہے تو جواز کے لیے ضروری ہے کہ کمپنی جو بینکوں کے ساتھ سودی لین دین کرتی ہے اس سے اپنی بیزاری کا اظہار کرے، نیز سالانہ جو منافع ملے اس میں سے ”سود“ کی مد میں حاصل شدہ منافع کو صدقہ کردے، کمپنی کی طرف سے جاری کردہ اسٹیٹمنٹ دیکھ کر اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ (دیکھیں: فقہی مقالات: ۱/۱۴۱، وبعدہ، امداد الفتاوی: ۳/ ۴۸۶، وبعدہ، ط: کراچی)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند