• معاملات >> شیئرز وسرمایہ کاری

    سوال نمبر: 152289

    عنوان: شریك كی اجازت كے بغیر كسی كو شریك كرنا

    سوال: السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ درج ذیل مسئلہ میں رہنمائی مطلوب ہے: دو شخص مثلاً زید اور عمر کاروبار میں شریک ہیں ، اور آپس میں باہمی معاہدہ ہے کہ بغیر شریک کی اجازت کے تیسرے آدمی کو کاروبار میں شریک نہیں کریں گے ، اب ایک شخص جو کہ زید کا عزیز ہے ، زید اس کے پیسے کاروبار میں شریک کرنا چاہتا ہے تاکہ اس کے عزیز کو نفع ہو، اور چونکہ عمر کی طرف سے اس کی اجازت نہیں ہے ، اس لئے زید اپنے عزیز سے پیسے لے کر اس کو کاروبار میں شریک کرنے کے لئے ان پیسوں کو اپنا ظاہر کرکے کاروبار میں لگادیتا ہے ، جس کی عملی صورت یہ اختیار کرتا ہے کہ مثلاً زید اور عمر 50،50 لاکھ کے شریک ہیں ، زید اپنے عزیز سے دس لاکھ لے لیتا ہے ، اور اپنے استعمال میں لے آتا ہے اور ان دس لاکھ کے بدلے میں اپنے دس لاکھ جو کہ کاروبار میں لگے ہوئے ہیں ، اپنے عزیز کے تصور کرتا ہے ، چنانچہ نفع آنے پر اپنے پچاس لاکھ میں سے 40 لاکھ کا نفع خود رکھے گا اور 10 لاکھ کا نفع اپنے عزیز کو دے گا۔ جواب طلب امر یہ ہے کہ کیا شرکت کی مذکورہ صورت جائز ہے ؟ اور زید کے عزیز کے لئے اس نفع کو لینا حلال ہے یا نہیں ، مذکورہ صورت کے جواز کی کیا شکل ہوسکتی ہے ؟ اب جبکہ یہ معاملہ ہوچکا ہے تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے کیا اس کو ختم کرنا ضروری ہے۔ والسلام بینوا توجروا

    جواب نمبر: 152289

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 952-909/sd=10/1438

    صورتِ مسئولہ میں اگر زید اور عمر کے درمیان یہ معاہدہ ہوچکا تھا کہ دونوں ایک دوسرے کی اجازت کے بغیر کسی تیسرے شخص کو کاروبار میں شریک نہیں کریں گے ، تو اب زید کے لیے عمر کی اجازت کے بغیر اپنے عزیز کو کاروبار میں شریک کرنا جائز نہیں ہے اور زید کے عزیز کے لیے بھی دس لاکھ کا نفع لینا جائز نہیں ہے ،جواز کی شکل یہ ہے کہ زید عمر سے اپنے عزیز کو شریک کرنے کی اجازت لے لے ، اس کے بغیر جواز کی کوئی شکل نہیں ہے۔قال الحصکفی : (لا) یملک الشریک (الشرکة) إلا بإذن شریکہ ۔ ( الدر المختار مع رد المحتار : ۳۱۷/۴، ط: دار الفکر، بیروت )قال الکاسانی : ولیس لہ أن یشارک إلا أن یوٴذن لہ بذلک؛ لأن الشیء لا یستتبع مثلہ،۔۔۔۔۔ہذا إذا لم یقل کل واحد منہما لصاحبہ: اعمل فی ذلک برأیک، فأما إذا قال ذلک، فإنہ یجوز لکل واحد منہما المسافرة والمضاربة والمشارکة،( بدائع الصنائع : ۶۹/۶۔۔۷۱، ط: دار الکتب العلمیة ، بیروت )


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند