• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 169008

    عنوان: آٹھ سال کی چھوٹی ہوئی وتر کی نمازیں کیسے پڑھی جائیں؟ نیز اگر کسی کو مشہور دعائے قنوت یاد نہ ہو تو وہ کیا کرے؟

    سوال: میری 8 سال کی وتر کی نماز قضا ہے ، اس کو کس طرح مختصر کرکے جلدی ادا کرو کیا دعائے قنوت کی جگہ کوئی اور دعا پڑھ سکتے ہیں، اس بارے میں رہنمائی فرمائیں ۔مجھے بہت ڈر ہے موت کا کی کہیں رہ نہ جائے جلدی جواب دیں ۔ اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے ۔

    جواب نمبر: 169008

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:596-487/N=7/1440

    (۱):اگر آپ کے ذمہ ۸/ سال کی وتر کی نمازیں ہیں تو آپ ان کی مجموعی تعداد ڈائری میں لکھ لیں۔ اور اگر ان کی صحیح تعداد یاد نہ ہو تو محتاط اندازہ لگاکر جو تعداد بنے، وہ لکھ لیں ، پھر روزانہ حسب سہولت، ۳یا ۴/ وتر کی قضا نمازیں ادا کیا کریں، اور جتنی نمازیں پڑھتے جائیں، ڈائری سے ان کی مقدار کم کرتے جائیں۔ اور اگر کبھی موقعہ ملے تو ۳، ۴سے زیادہ بھی پڑھ لیا کریں۔ اس طرح آہستہ آہستہ وتر کی ساری قضا نمازیں ادا ہوجائیں گی ؛ البتہ ممنوع اوقات (طلوع، زوال اور غروب آفتاب کے اوقات)میں قضا نہ کریں، نیز لوگوں کے سامنے بھی نہیں؛ ورنہ لوگوں کو آپ کے گناہ کا علم ہوگا اگرچہ آپ نے وہ لاعلمی وغیرہ میں کیا ہو۔ اور اگر تاریخ وار وتر یاد نہ ہوں تو نیت اس طرح کریں کہ میرے ذمہ زندگی کی جو پہلی وتر ہے، میں اس کی قضا کرتا ہوں یا میرے ذمہ جو سب سے آخری وتر ہے، اس کی قضا کرتا ہوں۔

    من لم یدر کمیة الفوائت یعمل بأکبر رأیہ، فإن لم یکن لہ رأي یقضي حتی یتیقن أنہ لم یبق علیہ شییء (حاشیة الطحطاوي علی المراقي،کتاب الصلاة، باب قضاء الفوائت،ص ۴۴۷، ط:دار الکتب العلمیة بیروت)، کثرت الفوائت نوی أول ظھر علیہ أو آخرہ (الدر المختار، کتاب الصلاة، باب قضاء الفوائت، ۲:۵۳۸، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، وجمیع أوقات العمر وقت القضاء إلا الثلاثة المنھیة(الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاة، باب قضاء الفوائت، ۲:۵۲۴)، قولہ:”إلا الثلاثة المنھیة“:وھي الطلوع والاستواء والغروب،ح (رد المحتار)، والنظر الدر والرد (کتاب الصلاة، ۲: ۳۰-۳۲، ۳۴، ۳۷) أیضاً، وینبغي أن لا یطلع غیرہ علی قضائہ؛ لأن التأخیر معصیة فلا یظھرھا (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاة، باب قضاء الفوائت، ۲: ۵۳۹)، قولہ: ”وینبغي الخ “:تقدم في باب الأذان أنہ یکرہ قضاء الفائتة فی المسجد وعللہ الشارح بما ھنا من أن التأخیر معصیة فلا یظھرھا و ظاھرہ أن الممنوع ھو القضاء مع الاطلاع علیہ سواء کان فی المسجد أو غیرہ، قلت: والظاھر أن ینبغي ھنا الوجوب وأن الکراھة تحریمیة الخ (رد المحتار)، وانظر الدر والرد (۲: ۵۸، ۵۹) والفتاوی الرحیمیة في واقعات السادة الحنفیة (ص ۸، الف، ب، مخطوطة)۔

    (۲): اگر کسی کو مشہور دعائے قنوت (: اللھم إنا نستعینک الخ ) یاد نہ ہو تو وہ کوئی بھی دعا پڑھ لے، مثلاً : ربنا آتنا فی الدنیا حسنة وفی الآخرة حسنة وقنا عذاب النار، یا تین بار اللھم اغفرلي یا یا رب، یا رب، یا رب کہہ لے ، واجب ادا ہوجائے گا؛ کیوں کہ واجب کی ادائیگی کے لیے کوئی بھی دعا پڑھ سکتے ہیں، البتہ سنت یہ ہے کہ مشہور دعائے قنوت پڑھی جائے؛ اس لیے آپ مشہور دعائے قنوت یاد کرنے کی کوشش جاری رکھیں۔

    من الواجبات قراء ة قنوت الوتر وھو مطلق الدعا (الدر المختار مع رد المحتار ، کتاب الصلاة، باب صفة الصلاة، ۲: ۱۶۳، ط:مکتبة زکریا دیوبند)، قولہ:”وھو مطلق الدعاء“:أي:القنوت الواجب یحصل بأي دعاء کان، قال فی النھر: وأما خصوص ”اللھم إنا نستعینک“ فسنة فقط حتی لو أتی بغیرہ جاز إجماعاً (رد المحتار)، ویسن الدعاء المشہور (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاة، باب الوتر والنوافل ۲: ۴۴۲)، ومن لایحسن القنوت یقول:”ربنا آتنا في الدنیا حسنة الآیة“، وقال أبو اللیث یقول:” اللّٰہم اغفرلي“ یکررہا ثلاثا، وقیل یقول: ”یا رب“ ثلاثا، ذکرہ فی الذخیرة (رد المحتار ۲: ۴۴۳عن شرح المنیة) ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند