• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 168906

    عنوان: تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھ کہاں تک اٹھانا چاہئے ؟

    سوال: میں حنفی ہوں نماز کی نیت کرنے کے لیے ہاتھ کہاں تک اٹھاننا چاہیے ؟ میں نے امام کعبہ کو دیکھا ہے جو نماز کی نیت کرنے کیلئے ہاتھ زیادہ سے زیادہ داڑھی کے نچلے حصے تک اٹھاتے ہیں، میری بھی یہ عادت بنی ہے ۔اس لیے میرا سوال یہ ہے کہ؛ 1۔کیا میرے لئے داڑھی کے نچلے حصے تک ہاتھ اٹھانا ٹھیک ہے ؟ 2۔ کیا انفرادی نماز میں سجدہ سہو کرنے کے لیے ضروری ہے کہ سجدہ کرنے سے پہلے دائیں طرف سلام پھیر لیا جائے ؟ یا صرف سجدہ کیا جائے ؟ برا ہ کرم، بحوالہ جواب دیں۔

    جواب نمبر: 168906

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:579-79T/sn=7/1440

     (1) مسلک حنفی میں کانوں تک ہاتھ اٹھانا شرعا مستحب ہے ؛ اس لئے آپ اسی کے مطابق عمل کریں، امام کعبہ کسی اور مسلک کے ہو ں گے ؛ اس لئے آپ ان کی اتباع نہ کریں، آپ کی جو عادت بنی ہوئی ہے اسے ترک کردیں۔

    (وکیفیتہا) إذا أراد الدخول فی الصلاة کبر ورفع یدیہ حذاء أذنیہ حتی یحاذی بإبہامیہ شحمتی أذنیہ وبرؤس الأصابع فروع أذنیہ....فإذا استقرتا فی موضع محاذاة الإبہامین شحمتی الأذنین یکبر قال شمس الأئمة السرخسی علیہ عامة المشایخ. کذا فی المحیط.[الفتاوی الہندیة 1/ 73، ط:زکریا)

    (ورفع یدیہ) قبل التکبیر، وقیل معہ (ماسا بإبہامیہ شحمتی أذنیہ) ہو المراد بالمحاذاة لأنہا لا تتیقن إلا بذلک...(قولہ ہو المراد بالمحاذاة) أی الواقعة فی کتب ظاہر الروایة وبعض روایات الأحادیث کما بسطہ فی الحلیة، ووفق بینہا وبین روایات الرفع إلی المنکبین، بأن الثانی إذا کانت الیدان فی الثیاب للبرد کما قالہ الطحاوی أخذا من بعض الروایات، وتبعہ صاحب الہدایة وغیرہ، واعتمد ابن الہمام التوفیق بأنہ عند محاذاة الیدین للمنکبین من الرسغ تحصل المحاذاة للأذنین بالإبہامین، وہو صریح روایة أبی داود قال فی الحلیة: وہو قول الشافعی، ومشی علیہ النووی وقال فی شرح مسلم إنہ المشہور من مذہب الجماہیر. (الدر المختار وحاشیة ابن عابدین (رد المحتار) 2/182، ط:زکریا)

    (2) جی ہاں! انفرادی نماز میں بھی سجدہ سہو سے پہلے اولاً دائیں طرف سلام پھیرنا چاہئے، پھر سجدہ سہو کرنا چاہئے ؛باقی اگر اتفاقاکوئی بغیر سلام پھیرے بھی سجدہ سہو کرلے تب بھی سجدہ سہو ادا ہوجائے گا گو ایسا کرنا بہتر نہیں ہے ۔

    ومحلہ بعد السلام سواء کان من زیادة أو نقصان....ولوسجد قبل السلام أجزأہ عندنا ہکذا روایة الأصول ویأتی بتسلیمتین ہو الصحیح، کذا فی الہدایة.والصواب أن یسلم تسلیمة واحدة وعلیہ الجمہور وإلیہ أشار فی الأصل، کذا فی الکافی ویسلم عن یمینہ، کذا فی الزاہدی وکیفیتہ أن یکبر بعد سلامہ الأول ویخر ساجدا ویسبح فی سجودہ ثم یفعل ثانیا کذلک ثم یتشہد ثانیا ثم یسلم، کذا فی المحیط.(الفتاوی الہندیة 1/ 139، زکریا)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند