• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 166340

    عنوان: اگر مسبوق امام کے ساتھ سجدہٴ سہو کا سلام پھیردے تو کیا حکم ہے؟

    سوال: امام کو اگر سہو واقع ہوجائے دوران نماز تو مسبوق یعنی جس کی ایک یا چند رکعت چھوٹ گئیں کو امام کے ساتھ سجدہ سہو کاسلام پھیرنا ضروری ہے یا نہیں اور اگر اس نے سلام پھیرا تو کیا حکم ہوگا؟

    جواب نمبر: 166340

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 280-218/B=3/1440

    امام سے سہو ہونے کی صورت میں مسبوق کے لئے امام کے ساتھ صرف سجدہ سہو کرنا ہے، اُس کے سلام میں امام کی پیروی کرنا درست نہیں چنانچہ اگر مسبوق نے جان بوجھ کر (یہ جانتے ہوئے کہ ابھی اس کی ایک یا چند رکعتیں باقی ہیں) امام کے ساتھ سلام پھیر لیا، تو اس کی نماز فاسد ہو جائے گی؛ اگر اس نے امام کے لفظ السلامُ کہنے کے بعد سہواً سلام پھیرا، تو اخیر میں اس پر سجدہٴ سہو کرنا واجب ہے اور اگر امام کے سلام پھیرنے سے پہلے یا بالکل ساتھ ساتھ مسبوق نے سہواً سلام پھیرا، تو اس پر سجدہ سہو لازم نہیں اور نہ ہی اس نماز پر کوئی فرق پڑے گا؛ البتہ چونکہ یہ دونوں صورتیں عام طور پر نہیں پائی جاتیں اس لئے جب تک یقینی طور پر اُن کا علم نہ ہو، سجدہ سہو لازماً کرے۔ والمسبوق یسجد مع امامہ مطلقا قال تحتہ في رد المحتار: قید بالسجود؛ لانہ لا یتابعہ في السلام بل یسجد معہ ویتشہد ، فاذا سلم الإمام قام إلی القضاء، فإن سلم : فإن کان عامداً فسدت وإلا لا، ولاسجود علیہ إن سلم سہواً قبل الإمام أو معہ ؛ وإن سلم بعدہ لزمہ لکونہ منفرداً حینئذ ، واراد بالمعیة المقارنة وہو نادر الوقوع، رد المحتار: ۲/۵۴۶-۴۷، کتاب الصلاة ، باب سجود السہو، ط: زکریا دیوبند وإن سلم معہ أو قبلہ لایلزمہ لانہ مقتد في ہاتین الحالتین وفي شرح المنیة عن المحیط إن سلم في الأولی مقارنا لسلامہ فلا سہو علیہ ․․․․․ قلت یشیر إلی أن الغالب لزوم السجود لأن الأغلب عدم المعیة وہذا مما یغفل عنہ کثیر من الناس فلیتنبہ لہ ، ردالمحتار: ۲/۳۵۰، کتاب الصلاة ، باب الامامہ ، قبیل باب الاستخلاف ، ط: زکریا دیوبند۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند