• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 158410

    عنوان: مغرب سے پہلے دو رکعت نفل کی شرعی حیثیت

    سوال: حضرت مفتی صاحب! ہم لوگ سعودی عرب میں کام کرتے ہیں۔ یہاں پر عرب لوگوں کو دیکھ کر ہمارے ہندوستانی ، پاکستانی اور بنگلہ دیشی ساتھی بھی مغرب کی اذان کے بعد یا کبھی کبھی مغرب کی اذان سے پہلے ہی تحیة المسجد دو رکعات نفل پڑھتے ہیں۔ ہم لوگ چونکہ حنفی مسلک پر عمل کرتے ہیں، نہ پڑھنے پر وہ لوگ بحث کرتے ہیں۔ تو ان کی بحث ومباحثہ سے بچنے کے لیے کیا مغرب کی اذان کے بعد فجر کی قضائے عمری کی نیت سے دو رکعات نماز پڑھ سکتے ہیں یا نہیں؟ کیا ہم کو بھی مغرب کی اذان کے بعد تحیة المسجد کی دو رکعات نفل پڑھنا پڑے گا کیا؟ مہربانی فرماکر اس مسئلہ پر روشنی ڈالیے۔ اور ہم کو تحیة المسجد مغرب کے بعد پڑھنا ہے یا صرف فجر کی قضا کی نیت کرکے مغرب کی اذان کے بعد دو رکعات پڑھنا چاہئے؟

    جواب نمبر: 158410

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 474-438/sd=5/1439

              مغرب کی اذان کے بعد دو رکعت پڑھنا احناف کے نزدیک اصلا مکروہ ہے ؛ اس لیے کہ مغرب میں تعجیل مستحب ہے ؛ لیکن اگر بحث و مباحثہ سے بچنے کے لیے پڑھ لی جائے ، تو مضائقہ نہیں ،یہ مباح درجہ کا عمل ہے ، قضائے عمری یا تحیة المسجد یا مطلق نفل کی نیت سے بھی دو رکعت پڑھی جاسکتی ہے ۔فرجّحت الحنفیّة أحادیث التّعجیل لقیام الإجماع علٰی کونہسنّة ، وکرہوا التّنفّل قبلہا ؛ لأنّ فعل المباح والمستحبّ إذا أفضٰی إلٰی الإخلال بالسّنّة یکون مکروہًا ، ولا یخفی أنّ العامّة لو اعتادوا صلاة رکعتیں قبل المغرب لیخلون بالسّنّة حتمًا ، و یوٴخّرون المغرب عن وقتہا قطعًا ، و أمّا لوتنفّل أحد من الخواص قبلہا ولم یخل بسنّة التّعجیل فلا یلزم علیہ ؛ لأنّہ قد أتی بأمر مباح فی نفسہأو مستحبّ عند بعضہم فحاصل الجواب أنّ التّنفّل قبل المغرب مباح فی نفسہ، وإنّما قلنا بکراہتہنظرًا إلی العوارض، فالکراہة عارضة ۔ إعلاء السّنن:۶۹/۲، مبحث الرّکعتین قبل المغرب ، ط: أشرفیة ، دیوبند ۔) 


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند