• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 154826

    عنوان: كیا امام بیٹھ كر نماز پڑھا سكتا ہے؟

    سوال: نمازسے اور متفرق موزوں سے متعلق مسائل (۱) آیا یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ الحمد اللہ ہماری مسجد مسلمانوں کی گنجان بستی میں واقع ہے جہاں الحمد اللہ حفاظ کرام ایسے موجود ہیں جو امام اور موذن کی غیر موجودگی میں نماز ادا کراتے ہیں۔ ایسی صورت میں اگرچہ امام طبیعت کی ناسازی یا ٹانگوں کی تکلیف کے باعث نماز کو بیٹھ کر ادا کرائیں تو یہ کس حد تک درست ہوگا۔ اس تعلق سے امام مسجد بیٹھ کر امامت کرانے کے تعلق سے اللہ کے نبی کی احادیث بیان کرچکے ہیں کہ اللہ کے نبی نے بیٹھ کر امامت فرمائی ہے ۔ اگر مسقبل قریب ایسا ہوتا ہے تو آیا یہ درست ہوگا؟ دوسری بات یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ (۲) ہمارے یہاں مسجد میں یہ چلن ہوتا جارہا ہے کہ امام کے مصلے پرپہنچنے سے پہلے (یعنی کہ مسجد کے اندرونی حصے میں داخلی دروازے سے مصلے تک تقریباً 5-6 صف ہیں) جیسے ہی وہ اندرونی دروازے میں قدم رکھتے ہیں اقامت شروع کردی جاتی ہے اور اس وقت ایسا گمان ہوتا ہے جیسا کہ امام نماز کی ادائیگی کے لیے نہیں بلکہ کوئی بادشاہ تشریف لا رہے ہیں اور ان کے لیے توصیفی کلمات پڑھے جارہے ہیں جیسا کہ پہلے بادشاہی دور میں ہوا کرتا تھا۔ (۳) مزید برآں یہ کہ موذن کی غیر موجودگی میں کئی بار کئی افراد جو مستقل طور پر مسجد کمیٹی یا پھر مسجد کے امور سے جڑے ہوئے ہیں وہ بجائے اقامت کو اطمینان سے کھڑے ہو کر پڑھنے کے اقامت پڑھتے ہوئے کھڑے ہوتے ہیں( یعنی کہ بیٹھے بیٹھے اقامت شروع کردیتے ہیں اور پڑھتے پڑھتے کھڑے ہوتے ہیں) آیا یہ کس حد موزوں ہے شرعی اعتبار سے ۔ (۴) اس کے علاوہ انہی لوگوں میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو امام صاحب کے مسجد کے اندرونی حصے میں داخل ہوتے ہی کسی بھی صف سے یعنی پانچویں صف سے ، دوسری صف سے ، چوتھی سے حتی کہ آخری صف سے اقامت شروع کردیتے ہیں جبکہ پہلی صف میں مصلے کے پاس باشرح اور موزوں لوگ موجود ہوتے ہیں۔ (۵) حتی کہ ایک بار امام صاحب نے طبیعت خرابی کے باعث بیٹھ کر اقامت پڑھی جب کہ اس وقت بھی کثیر مجمع ایسا موجود تھا جو کہ اقامت پڑھنے کا اہل ہوسکتا تھا۔ برائے کرم قرآن و حدیث کی روشنی میں ان سوالات کے جوابات ارسال فرمائیں چونکہ یہ سب چیزیں دیکھ کر بڑی کوفت محسوس ہوتی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ کہیں یہ تمام چیزیں مستقل طور پر رائج نہ ہوجائیں۔ (۶) ایک مسئلہ اور یہ دریافت کرنا تھا کہ ہمارے یہاں تقریبا 03 سے 04 سال سے ہر جمعہ کی نماز میں قنوت نازلہ پڑھا جارہا ہے ۔ اور میرے کئی جاننے والوں نے کہا یہ غالبا درست نہیں ہے کہ جمعہ میں پڑھا جائے میں نے دارالعلوم کی سائٹ پر مسائل میں بھی دیکھا تھا وہاں سے بھی یہ محسوس ہوا کہ قنوت نازلہ کو نماز فجر میں ادا کرنا چاہیے ۔ (۷) اختتام میں بس اس بات کو جاننے کی طلب کے ساتھ بات کو ختم کرنا چاہوں گا کہ ہمیں نماز(خصوی طور پر فرائض) میں زیادہ وقت دینا چاہیے یا نماز کے بعد دعا میں زیادہ وقت لگانا چاہیے ( مثال کے طور پر 4 رکعت نماز فرض میں 4-5 منٹ اور نماز کے بعد دعا میں 3 سے 5 یا 6 منٹ)۔

    جواب نمبر: 154826

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 1436-1458/N=1/1439

    (۱): جو شخص عذر شرعی کی وجہ سے کھڑے ہوکر نماز پڑھانے پر قادر نہ ہو اور وہ بیٹھ کر رکوع سجدے کے ساتھ نماز پڑھائے تو اس کی اقتدا میں کھڑے ہوکر نماز پڑھنے والوں کی نماز درست ہوتی ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری نماز عذر کی وجہ سے بیٹھ کر ادا فرمائی اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  نے کھڑے ہوکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا کی؛ اس لیے صورت مسئولہ میں اگر امام صاحب کبھی کبھار اس درجہ طبیعت کی ناسازی یا پیروں میں تکلیف کی وجہ سے کہ ان کے لیے نماز میں کھڑا ہونا ممکن نہ ہو یا سخت مشکل وباعث دشواری ہو، بیٹھ کر رکوع سجدے کے ساتھ نماز پڑھائیں تو ان کی اقتدا میں کھڑے ہوکر نماز پڑھنے والوں کی نماز درست ہوگی ؛ البتہ اگر کوئی دوسرا لائق امامت شخص کھڑے ہوکر نماز پڑھانے والا موجود ہو تو اسے امام بنانا اولی ہے، نیز بعض مرتبہ آدمی مسئلہ شرعی سے صحیح طور پر واقف نہ ہونے کی وجہ سے اپنے آپ کو قیام سے عاجز سمجھتا ہے اور شرعی اعتبار سے وہ عاجز نہیں ہوتا؛ اس لیے احتیاط یہ ہے کہ امام صاحب جب کھڑے ہوکر نماز نہ پڑھاسکیں تو کسی دوسرے لائق امامت کو امام بنادیا کریں، خود بیٹھ کر نماز پڑھاکریں۔

    وصح اقتداء …قائم بقاعد یرکع ویسجد؛ لأنہ صلی اللہ علیہ وسلم صلی آخر صلاتہ وھم قیام وأبو بکر یبلغھم تکبیرہ، …،وغیرہ أولی (الدر المختار، کتاب الصلاة، باب الإمامة، ۲: ۳۳۶- ۳۳۸، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔

    (۲- ۵): جب جماعت کا وقت ہوجائے اور امام صاحب مصلی پر جانے کے لیے تیار ہوں تو اقامت شرع کرنا درست ہے، اقامت شروع کرنے کے لیے امام کا مصلی پر پہنچنا ضروری نہیں؛ البتہ کھڑے ہوکر اقامت شروع کی جائے، بیٹھ کر اقامت شروع نہ کی جائے اگرچہ بیٹھ کر بھی اقامت کہنا درست ہے اور اقامت کہنے کا حق دار وہ شخص ہے جس نے اذان کہی ہو، اور اگر اذان کہنے والا صراحتاً یا دلالتاً دوسرے کو اقامت کہنے کی اجازت دیدے تو دوسرا شخص بھی اقامت کہہ سکتا ہے اور اقامت کے لیے پہلی صف لازم ومتعین نہیں ہے؛ بلکہ جہاں سے مسجد میں موجود زیادہ سے زیادہ مقتدیوں کو آواز پہنچے ، وہاں سے اقامت کہی جائے۔

    (۶): احناف کے نزدیک قنوت نازلہ نماز فجر میں مشروع ہے، دوسری کسی نماز میں نہیں؛ اس لیے جمعہ میں قنوت نازلہ نہ پڑھی جائے۔

    وھو صریح في أن قنوت النازلة عندنا مختص بصلاة الفجر دون غیرھا من الصلوات الجھریة أو السریة (رد المحتار، کتاب الصلاة، باب الوتر والنوافل، ۲:۴۴۹، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔

    (۷): اس کے لیے شریعت کی طرف سے کوئی وقت متعین نہیں ہے اور نہ ہی دونوں میں تقابل مقصود ومطلوب ہے، آدمی حسب سہولت اخلاص کے ساتھ دعا اور نماز میں سے جس میں جتنا چاہے وقت لگاسکتا ہے؛ البتہ جن نمازوں کے بعد سنتیں ہیں، ان میں سلام کے بعد فوراً مختصر دعا کی جائے، اس کے بعد سنتیں شروع کردی جائیں، اس وقت میں لمبی دعا کرنا یا مختلف اذکار واوراد میں مشغول ہونا بہتر نہیں، خلاف سنت ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند