عبادات >> صلاة (نماز)
سوال نمبر: 154826
جواب نمبر: 154826
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa: 1436-1458/N=1/1439
(۱): جو شخص عذر شرعی کی وجہ سے کھڑے ہوکر نماز پڑھانے پر قادر نہ ہو اور وہ بیٹھ کر رکوع سجدے کے ساتھ نماز پڑھائے تو اس کی اقتدا میں کھڑے ہوکر نماز پڑھنے والوں کی نماز درست ہوتی ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری نماز عذر کی وجہ سے بیٹھ کر ادا فرمائی اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کھڑے ہوکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا کی؛ اس لیے صورت مسئولہ میں اگر امام صاحب کبھی کبھار اس درجہ طبیعت کی ناسازی یا پیروں میں تکلیف کی وجہ سے کہ ان کے لیے نماز میں کھڑا ہونا ممکن نہ ہو یا سخت مشکل وباعث دشواری ہو، بیٹھ کر رکوع سجدے کے ساتھ نماز پڑھائیں تو ان کی اقتدا میں کھڑے ہوکر نماز پڑھنے والوں کی نماز درست ہوگی ؛ البتہ اگر کوئی دوسرا لائق امامت شخص کھڑے ہوکر نماز پڑھانے والا موجود ہو تو اسے امام بنانا اولی ہے، نیز بعض مرتبہ آدمی مسئلہ شرعی سے صحیح طور پر واقف نہ ہونے کی وجہ سے اپنے آپ کو قیام سے عاجز سمجھتا ہے اور شرعی اعتبار سے وہ عاجز نہیں ہوتا؛ اس لیے احتیاط یہ ہے کہ امام صاحب جب کھڑے ہوکر نماز نہ پڑھاسکیں تو کسی دوسرے لائق امامت کو امام بنادیا کریں، خود بیٹھ کر نماز پڑھاکریں۔
وصح اقتداء …قائم بقاعد یرکع ویسجد؛ لأنہ صلی اللہ علیہ وسلم صلی آخر صلاتہ وھم قیام وأبو بکر یبلغھم تکبیرہ، …،وغیرہ أولی (الدر المختار، کتاب الصلاة، باب الإمامة، ۲: ۳۳۶- ۳۳۸، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔
(۲- ۵): جب جماعت کا وقت ہوجائے اور امام صاحب مصلی پر جانے کے لیے تیار ہوں تو اقامت شرع کرنا درست ہے، اقامت شروع کرنے کے لیے امام کا مصلی پر پہنچنا ضروری نہیں؛ البتہ کھڑے ہوکر اقامت شروع کی جائے، بیٹھ کر اقامت شروع نہ کی جائے اگرچہ بیٹھ کر بھی اقامت کہنا درست ہے اور اقامت کہنے کا حق دار وہ شخص ہے جس نے اذان کہی ہو، اور اگر اذان کہنے والا صراحتاً یا دلالتاً دوسرے کو اقامت کہنے کی اجازت دیدے تو دوسرا شخص بھی اقامت کہہ سکتا ہے اور اقامت کے لیے پہلی صف لازم ومتعین نہیں ہے؛ بلکہ جہاں سے مسجد میں موجود زیادہ سے زیادہ مقتدیوں کو آواز پہنچے ، وہاں سے اقامت کہی جائے۔
(۶): احناف کے نزدیک قنوت نازلہ نماز فجر میں مشروع ہے، دوسری کسی نماز میں نہیں؛ اس لیے جمعہ میں قنوت نازلہ نہ پڑھی جائے۔
وھو صریح في أن قنوت النازلة عندنا مختص بصلاة الفجر دون غیرھا من الصلوات الجھریة أو السریة (رد المحتار، کتاب الصلاة، باب الوتر والنوافل، ۲:۴۴۹، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔
(۷): اس کے لیے شریعت کی طرف سے کوئی وقت متعین نہیں ہے اور نہ ہی دونوں میں تقابل مقصود ومطلوب ہے، آدمی حسب سہولت اخلاص کے ساتھ دعا اور نماز میں سے جس میں جتنا چاہے وقت لگاسکتا ہے؛ البتہ جن نمازوں کے بعد سنتیں ہیں، ان میں سلام کے بعد فوراً مختصر دعا کی جائے، اس کے بعد سنتیں شروع کردی جائیں، اس وقت میں لمبی دعا کرنا یا مختلف اذکار واوراد میں مشغول ہونا بہتر نہیں، خلاف سنت ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند