• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 150774

    عنوان: ہمارے یہاں جو جنتریاں ہیں ان میں کافی فرق ہے‏، ہمیں كیا كرنا چاہیے؟

    سوال: اسلامک یونیورسٹی آف کراچی سے جو نماز کے اوقات یعنی جنتری جاری کی جاتی ہے کیا اس کے حساب سے ہم اپنی مسجد کی نماز کا ٹائم رکھ سکتے ہیں؟یا پھر آپ ہی کسی جنتری کا مشورہ دیدیجئے ۔ ہمارے یہاں جو جنتریاں ہیں ان میں کافی فرق ہے ؟

    جواب نمبر: 150774

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 825-808/N=8/1438

    دیوبند اور اس کے اطراف میں سب سے صحیح ومعتبر، قاسمی دوامی جنتری ہے جوصاحب زادہٴ حکیم الاسلام، حضرت مولانا محمد اسلم رمزی قاسمی صاحب دامت برکاتہم العالیہ نے مرتب فرمائی ہے؛ لہٰذاآپ اپنی مسجد کی نماز کا ٹائم اُسی کے حساب سے رکھیں؛ البتہ جنتریاں محض ظنی وتخمینی ہوتی ہیں، قطعی ویقینی نہیں ہوتیں، یعنی: اُن میں صبح صادق یا غروب آفتاب وغیرہ کے جو اوقات ہوتے ہیں، وہ سو فیصد قطعی ویقینی نہیں ہوتے، نیز گھڑیوں کے اوقات کا مکمل طور پر صحیح ہونا بھی ضروری نہیں؛ اس لیے ماہ رمضان میں افطار ،ختم سحر ، اذان فجر اور اذان عشا وغیرہ میں احتیاط کی رعایت کے ساتھ ہی جنتری پر عمل کرنا چاہیے؛ یعنی: ختم سحر اگر ( مثلاً) ۴۵: ۳پر ہے تو اس سے آٹھ دس منٹ پہلے ہی سحری بند کردی جائے، غروب آفتاب ۵۵: ۶پر ہے تو احتیاطاً کم از کم تین منٹ کے بعد اذان یا افطار کا اعلان ہو اور فجر کی اذان ختم سحر سے آٹھ دس منٹ بعد کہی جائے۔ اگر ایسا کیا جائے گا تو ہمارے روزے اور نماز وغیرہ سب بلا شک شبہ صحیح ودرست ہوں گے، نیز آج کل ہر علاقے میں جو جدید وقدیم جنتریوں کا شدید اختلاف چل رہا ہے، وہ عملی طور پر بالکل ختم ہوجائے گا؛ کیوں کہ قدیم وجدید جنتریوں میں غروب آفتاب کے اوقات میں تو بس برائے نام ایک ڈیڑھ منٹ کا فرق ہے اور صبح صادق کے اوقات میں زیادہ سے زیادہ آٹھ دس منٹ کا فرق ہے، پس جب فجر کی اذان ختم سحر سے دس منٹ بعد کہی جائے گی تو جدید جنتریوں کے حساب سے بھی فجر کا وقت شروع ہوجائے گا۔ دار العلوم دیوبند سے ہر سال ماہ رمضان میں جو نقشہ اواقات سحر وافطار شائع ہوتا ہے، اس میں دو تین سالوں سے اذان فجر کا مستقل خانہ رکھا گیا ہے اور ہر روز اذان فجر کا وقت قدیم جنتری کے حساب سے ختم سحر سے دس منٹ بعد لکھا گیا ہے؛ لہٰذا آپ لوگ بھی اگر ایسا کریں گے تو انشاء اللہ رمضان المبارک کا با برکت مہینہ خیر وعافیت کے ساتھ گذرے گا اور جدید وقدیم جنتریوں کے اختلاف سے آپ لوگوں کو دوچارہونا نہیں پڑے گا۔ اللہ تعالی توفیق عطا فرمائیں۔ ومحل الاستحباب إذا لم یشک في بقاء اللیل، فإن شک کرہ الأکل فی الصحیح کما فی البدائع أیضاً( رد المحتار،کتاب الصوم، ۳: ۴۰۰، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، ویکرہ تأخیرہ إلی وقت یقع فیہ الشک، ھندیة(حاشیة الطحطاوي علی المراقی،ص: ۶۸۳، ط:دار الکتب العلمیة بیروت) ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند