• معاشرت >> اخلاق و آداب

    سوال نمبر: 6206

    عنوان:

    میں 2001 میں امریکہ آیا، اوراپنے ویزا کی مدت سے زیادہ ٹھہرگیا، ایک ٹیکسی ڈرائیور کی حیثیت سے کام کیا، اپنے والدین کے لیے اور اپنے لیے رقم بھیجا (تاکہ امریکہ سے واپس ہونے کے بعد میں اچھی زندگی گزار سکوں)۔ لیکن میرے والدین کی وجہ سے میرے تمام خواب اورقربانی بیکار ہوگئیں۔ انھوں نہ صرف تمام پیسہ خرچ کردیا جو کہ میں نے ان کو بھیجا تھا، حتی کہ انھوں نے میرا پیسہ بھی خرچ کردیا جو کہ میری اچھی زندگی کے لیے تھا۔ بہت زیادہ بحث و مباحثہ کرنے کے بعد، وہ میرے ساتھ لڑنے لگتے تھے یہ کہتے ہوئے کہ میں ان کی دیکھ بھال اوراپنی بہنوں کی دیکھ بھال نہیں کرتا ہوں۔۔۔۔۔؟؟

    سوال:

    میں 2001 میں امریکہ آیا، اوراپنے ویزا کی مدت سے زیادہ ٹھہرگیا، ایک ٹیکسی ڈرائیور کی حیثیت سے کام کیا، اپنے والدین کے لیے اور اپنے لیے رقم بھیجا (تاکہ امریکہ سے واپس ہونے کے بعد میں اچھی زندگی گزار سکوں)۔ لیکن میرے والدین کی وجہ سے میرے تمام خواب اورقربانی بیکار ہوگئیں۔ انھوں نہ صرف تمام پیسہ خرچ کردیا جو کہ میں نے ان کو بھیجا تھا، حتی کہ انھوں نے میرا پیسہ بھی خرچ کردیا جو کہ میری اچھی زندگی کے لیے تھا۔ بہت زیادہ بحث و مباحثہ کرنے کے بعد، وہ میرے ساتھ لڑنے لگتے تھے یہ کہتے ہوئے کہ میں ان کی دیکھ بھال اوراپنی بہنوں کی دیکھ بھال نہیں کرتا ہوں (میری تین بہنیں ہیں دو میڈیکل میں ہیں اورایک ڈینٹل میں) ۔ ان کو اس کالج میں بہت زیادہ عطیہ دے کر کے داخلہ کرایا ہے جس کا انتظام میرے والد صاحب نے اپنا مکان اورجائیداد بیچ کرکے کیا جس کو انھوں نے عرب امارات میں اپنے پچیس سالہ قیام کے دوران کمایا تھا۔ ان سب کے بعد وہ چاہتے ہیں کہ میں بھی فیملی کے معاملہ میں دلچسپی لوں، یہ نہ سوچتے ہوئے کہ میں امریکہ میں کس طرح کی پریشان کن زندگی گزار رہا تھا (کیوں کہ ٹیکسی چلانے کی وجہ سے میری کمر بیکار ہوچکی ہے اوررات ڈیوٹی میں کام کرنے کی وجہ سے افسردہ ہوگیا ہوں اور میں افسردگی، رنجیدگی اور بے خوابی کی دوا لے رہا ہوں)۔ میری ماں اور باپ دونوں اس شازش میں شامل تھے، میں اپنی ماں کے بارے میں نہیں جانتا ہوں، لیکن میرے والد (وہ میرے حقیقی والدہیں) ہمیشہ میری جانب ایک طرح کی نفرت کرتے رہے اور میں نہیں جانتا ہوں کہ کیوں؟ میری ماں کے بارے میں حتی کہ اس نے کبھی بھی میری پریشانی کا نہیں سوچا اور میرے والد کے پروپیگنڈہ کا تعاون کرنا جاری رکھا، ان تمام باتوں کی وجہ سے میری زندگی کی تمام قربانیاں بے کار ہوگئیں، اپنے والدین پر اعتمادکھو جانے کے بعد میں نے یہاں گرین کارڈ حاصل کرنے کے لیے ایک مطلقہ عورت سے شاد ی کرلی، یہ عورت روئے زمین کی سب سے بری عورت ہے، اس کا پہلا شوہر کمزور اور ناتواں تھا اس لیے وہ بچہ کے لیے مایوس تھی، شادی سے پہلے وہ ہر چیز پر تیار تھی جو کچھ میں نے کہا، لیکن جوں ہی میں نے شادی کی تو اس نے اپنا اصلی چہرہ دکھایا، بہر حال میں ا س کا مسئلہ خود ہی حل کرلے رہا ہوں۔ میرا اصل مسئلہ وراثت کا ہے میرے والد نے مجھے کبھی بھی اچھی تعلیم نہیں دی، اور جب بھی میں نے ان سے اچھی تعلیم دلانے کے لیے کہا توانھوں نے میرے سامنے کہا کہ میں اس کے لائق نہیں ہوں، لیکن جب میری بہنوں نے کہا تو انھوں نے خوشی خوشی قبول کرلیا، اس کی وجہ سے میں نے اعتراف کیا کہ میں ان کا اعتماد نہیں حاصل کرسکا۔ صرف یہی نہیں بلکہ جو رقم میں نے اپنے والد کو بھیجا اپنی زندگی شروع کرنے کے لیے انڈیا واپس ہونے کے بعد اور شادی کرنے کے لیے تو انھوں نے اس کے بارے میں کبھی نہیں سوچا، اب میں بتیس سال کا ہوں، اس لیے مجھے یہاں شادی کرنی پڑی۔ ان تمام کے بعد یہ درد و تکلیف اور قربانی اور کبھی کوئی چیز نہ حاصل کرنے والے سات سال کے بعد بھی میں اس عورت کی وجہ سے گرین کارڈ کے بارے میں مطمئن نہیں ہوں ۔ والدین کو چھوڑنے کا صحیح طریقہ کیا ہے؟ میں ان سے کچھ نہیں چاہتا ہوں، نہ کوئی دولت نہ کوئی جائیداد، اور نہ ہی کچھ۔ کیا آپ ایک فتوی جاری کردیں گے کہ میں نے اپنے والد، والدہ اور بہنوں کو چھوڑ دیا ہے؟ میں حیدرآباد انڈیا کا رہنے والا ہوں، کیا آپ مجھے کوئی ادارہ یا مدرسہ بتادیں گے جہاں میں اپنے فتوی کے لیے جاسکوں، میں اس کو شریعت اور قانون دونوں کے مطابق ختم کرنا چاہتا ہوں۔ دونوں طریقوں پر عمل کرنا یاصرف شریعت پر عمل کرنا کافی ہے؟ میں ان سے کچھ نہیں لینا چاہتا ہوں اور میں اپنے والدین کی جگہ ان کا نام بھی استعمال نہیں کرنا چاہتا ہوں۔ میں سوچتا ہوں کہ میں ان کے انتقال کے وقت بھی نہیں جاؤں گا اوروہ کبھی میرے بارے میں نہیں جانیں گے کہ میں کب اور کیسے مرا۔

    جواب نمبر: 6206

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 1250=1083/ ب

     

    ان سب حالات کو باوجود والدین کے ساتھ قطع تعلق کرنا والدین کی حق تلفی ہے، والدین کا احترام ان کی خدمت اور ان کو خوش کرنا لازم ہے، دنیاوی رنجش کی وجہ سے قطع تعلق کردینے والے کی دُعا اور عبادت قبول نہیں ہوتی ہے، اس لیے والدہ محترمہ کی خدمت میں حاضر ہوکر ان کو خوش کریں۔

     قال اللہ تعالیٰ: وَلاَ تَقُلْ لَّھُمَا اُفٍّ (بني إسرائیل:۲۳)

    وعن المغیرة رضي اللہ عنہ قال رسول صلی اللہ علیہ وسلم إن اللہ حرم علیکم عقوق الأمہات

    وعن الأعمش قال:․․․․․ إن أبواب السماء مرتجة دون أبواب السماء (رواہ الطبراني ورجالہ الصحیح)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند