• معاشرت >> اخلاق و آداب

    سوال نمبر: 59472

    عنوان: ہمارے والد کی زیادتی پر ہم کیا کریں؟

    سوال: ہمارے والد کی زیادتی پر ہم کیا کریں؟ میرے والد صاحب ہیں، جس کو کوئی رشتہ دار پسند نہیںآ تے ، جس کی وجہ سے ہم لوگ کسی سے بھی نہیں مل سکتے ہیں اور ننہیال سے تو بالکل بھی پسند نہیں ، اس کی وجہ سے میری والدہ کو میکے والوں سے ملنے کی بالکل بھی اجازت نہیں ہے اور اب ہم بہنوں کی شادی کے بعد بھی والد کی وجہ سے ہم کسی سے بھی نہیں ملتے اور کیا ہم بنا والد کی اجازت کے ہم ملیں گے تو گناہ ہیں؟ ہمارے شوہر کو کوئی اعتراض نہیں ہے، پر والد کی وجہ سے دن بہ دن ہم بہت مسئلے میں آجارہے ہیں یہاں تک کہ بعض وقت ایسا ماحول ہوجاتاہے کہ انہیں ہم بھی پسند نہیں آتے، اولاد سے بھی نفرت کرتے ، مارتے ، باندھ رکھتے کمرے میں، بیوی پسند نہیں آتی اور بہت زیادہ شک کرتے ہیں۔ اس پورے مسئلے میں ، کیا ہم لوگ والد صاحب کی ناراضگی سے رشتہ دار سے ملیں گے تو کیا ہم لوگ گناہ گار ہوں گے؟اور ہم بہنیں جب میکے جاتی ہیں تب والدہ کو ان کے میکے والوں سے فون پر بات کرواتے ہیں جیسے ان کے بہن بھائی ۔ اگر ہمارے والد ہم بہن بھائیوں میں سے کسی سے ناراض رہے تو ․․․․․․․․․․․․․․․ براہ کرم، رہنمائی فرمائیں۔

    جواب نمبر: 59472

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 497-497/Sd=10/1436-U صلہ رحمی یعنی رشتہ داروں سے تعلقات استوار رکھنا، ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنا، گاہ بگاہ ان سے ملاقات کرنا اِسلام کا ایک اہم حکم ہے، احادیث میں صلہ رحمی کی بہت تاکید وارد ہوئی ہے اور رشتہ ناطہ توڑنے پر سخت وعید وارد ہوئی ہے، صورت مسئولہ میں اگر آپ کے والد صاحب بغیر کسی شرعی وجہ کے آپ کو اور آپ کی والدہ کو رشتہ داروں سے ملنے سے روکتے ہیں تو ان کا یہ عمل غیر شرعی ہے، ایسی صورت میں ان کی ناراضگی کے باوجود رشتہ داروں سے ملنے میں آپ لوگ گنہ گار نہیں ہوں گے، تاہم اس کے باوجود والد کی عظمت واحترام میں کوئی کمی نہ کریں، ان کے حقوق ادا کرتے رہیں، ان کے تعلق سے اپنا دل صاف رکھیں، حکمت اور حسن تدبیر سے والد صاحب کو رشتہ داروں کے حقوق بتانے کی کوشش کریں۔ (فتاوی دارالعلوم: ۱۶/ ۴۸۵، بعنوان: بیوی کو اس کے والدین سے ملنے کے لیے نہ جانے دینا، و۱۶/ ۵۱۴، بعنوان: ماں باپ: نانا، نانی یا خالو سے قطع تعلق پر مجبور کریں تو کیا حکم ہے)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند