• معاشرت >> اخلاق و آداب

    سوال نمبر: 151449

    عنوان: والدین اور بیوی دونوں کے حقوق

    سوال: حضرت! اگر والدین ضعیف ہوں اور لڑکا اپنی نوکری کی وجہ سے دور رہتا ہو، اور والدین اپنے آباء کے (پرانے) گھر (گاوٴں) کو چھوڑ کر شہر میں نہ آسکتے ہوں اور بیوی اگر اپنے شوہر کے ساتھ رہنا چاہتی ہو تو شوہر کو کیا کرنا چاہئے؟ جو پریشانیاں درپیش ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں۔ (۱) بڑے بھائی کی بیوی ایک لمبے عرصہ والدین کے ساتھ رہ چکی ہیں، ابھی وہ خود اس عمر میں ہیں کہ ان کے ساتھ بھی کوئی رہنے والا چاہئے اور وہ بیمار رہتی ہیں اس لیے بھابھی گاوٴں میں اکیلے نہیں رہ سکتی۔ (۲) دوسرے بھائی کی طبیعت خراب رہتی ہے اور ان کے دو لڑکے شہر کے اسکول میں پڑھتے ہیں اس لیے وہ بھی بیمار شوہر کو چھوڑ کر گاوٴں نہیں رہ سکتی۔ (۳) تیسرے بھائی کی بیوی گھر پر رہتی ہیں اور ان کے دو بچے ہیں اس لیے وہ بھی والدین کی دیکھ بھال نہیں کرپاتی ہیں اور وہ اپنے کام سے کام رکھنے والی ہیں، والدین کا کہنا ہے کہ اس کا رہنا اور نہ رہنا دونوں برابر ہے۔ (۴) اب بچا میں اور میری بیوی، دونوں سے والدین خوش ہیں اور اس کو ساتھ رکھنا چاہتے ہیں اور میری بیوی کو ان کے ساتھ رہنے میں کوئی دقت نہیں ہے لیکن اس کا کہنا ہے کہ میں بھی ان کے ساتھ ہی رہوں گی ، والدین شہر نہیں آسکتے اور میں گاوٴں نہیں جاسکتا۔ سال میں چار سے پانچ مرتبہ گاوٴں جاتا ہوں کبھی چار دن کے لیے اور کبھی دس دن کے لیے۔ لیکن اب میں اپنی بیوی کو سمجھانہیں پا رہا ہوں اس لیے مجھے سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ مجھے کیا کرنا چاہئے۔ میرے پاس دو سال کا ایک بچہ ہے جو بیوی کے ساتھ رہتا ہے۔ اب بیوی اپنی پریشانی کسی کو شیئر نہیں کرتی ہے بیمار ہونے پر دوا بھی نہیں کھاتی ہے اور کہتی ہے کہ آپ کے ساتھ رہوں گی تو کھاوٴں گی۔ اگر میں اپنے ساتھ رکھتا ہوں تو والدین کچھ بولتے نہیں ہیں لیکن ماں خفاء خفاء سی رہتی ہیں۔ بیوی کو کہتا ہوں کہ مہینہ دو مہینہ میرے ساتھ رہ لے پھر گھر چلی جا اور ایسے ہی آنا جانا لگا رہے گا، دونوں کی زندگی بھی صحیح سے کٹ جائے گی اور والدین بھی خوش رہیں گے، لیکن اس کا کہنا ہے کہ ہمیشہ ساتھ میں رہیں گے ورنہ میں گاوٴں میں ساس کے ساتھ رہ لوں گی لیکن جب وہ گاوٴں میں رہتی ہے تو کوئی نہ کوئی ٹینشن لگا رہتا ہے اور میں اپنا کام بھی پورے لگن سے نہیں کر پاتا ہوں، اب تو میں ٹینشن کا مریض ہوگیا ہوں۔ اللہم خیر ۔ براہ کرم اس بارے میں میری رہنائی فرمائیں، کرم ہوگا۔

    جواب نمبر: 151449

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 1034-958/H=9/1438

     

    عافیت واعتدال کا راستہ یہی ہے کہ بیوی کی تجویز (ہمیشہ ساتھ میں رہیں گے) کے موافق اس کو اور بچوں کو اپنے ساتھ رکھیں البتہ آپ خود والدین کے پاس آنے جانے میں کچھ اضافہ کے ساتھ نظام بنالیں ان کی جانی مالی ہرطرح کی خدمت کرتے رہیں ان کے حق میں دعاوٴں کا بہت اہتمام کرتے رہیں مناسب موقعہ دیکھ کر بھائیوں سے بھی اس کی درخواست کردیا کریں، جو بھائی بھابی خوش دلی سے جتنی خدمت پر آمادہ ہوجائں تو سبحان اللہ ورنہ کسی پر قولاً وعملاً جبر کی صورت اختیار نہ کریں تلاوتِ قرآنِ کریم اور درود شریف کی اپنے مشاغل کے اعتبار سے کثرت رکھیں، تلاوت اور ردود شریف کے بعد پانی پر دم کرکے خود ہی اس پانی کو پی لیا کریں ان شاء اللہ ٹینشن کے مرض سے بعافیت نجات حاصل ہوگی۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند