• عبادات >> ذبیحہ وقربانی

    سوال نمبر: 35246

    عنوان: اجتماعی قربانی

    سوال: محترم مفتی صاحب مجھے اجتماعی قربانی کے بارے میں مسئلہ معلوم کرنا تھا، کہ یہاں پاکستان میں اکثر لوگ مختلف اداروں کے ذریعے قربانی کرتے ہیں تو اس میں ادارہ اپنا طرف سے کوئی شرائط لگا سکتا ہے؟ مثلا یہ کہ مخصوص مقدار میں ہی گوشت حاصل کر سکیں گے اور مخصوص دنوں میں؟ اگر ایک ادارے کی شرط میں ہو کہ گا ئے کا ایک حصّہ لینے پر ۴ کلو گوشت عید کے ۲ دنوں میں رسید دکھا کر حاصل کر سکتے ہیں اور قربانی تینوں دن کی جائے گی تو ایسا کرنا شرعی نقطہ نظر سے درست ہے؟کیا شراکت داروں کو ان کے حصّے سے کم حصّہ دینے سے سب شرکاء کی قربانی صحیح ہو جاتی ہے ا کسی کی صحیح نہیں ہوتی؟ اور جب قربانی تینوں دن ہو گی اور گوشت صرف ۲ دن لے سکتے ہیں تو وھ لازماہمارے حصّے کا تو نہیں ہو گا،اور نہ ہی ہر قسم کا گوشت ہو گا ، کسی کے حصّے میں کچھ ہو گا اور کسی میں کچھ، غرض شرکاء برابر بھی نہیں ہوں گی حصّوں میں، جبکہ جہاں تک میری معلومات ہیں سب شرکاء میں برابری ہونی چاہیے . الغرض تفصیل کے ساتھ اس مسئلہ کا حل بتا دیں کہ ا یسے ادارے میں قربانی کا کیا حکم ہے؟ مزید یہ بھی پوچھنا ہے کہ مذکورہ ادارہ لوگوں سے قربانی کی کھالیں جمع کروانے کی اپیل بھی کرتا ہے ، اور کھالوں کی رقم لاوارث میتوں کی تدفین ،غسل وغیرہ میں استعمال کرتا ہے تو کھالوں کا یہ مصرف درست ہے؟

    جواب نمبر: 35246

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(د): 1929=401-11/1432 قربانی کرانے والے ادارے یا کرانے والا فرد اپنی محنت کا معاوضہ پہلے سے طے کرکے لے سکتا ہے، پھر ہرحصہ دار اپنے حصہ کے بقدر گوشت کھال کا مالک ہوگا، بدون اس کی مرضی اور اجازت کے قربانی کروانے والے ادارہ کو تصرف کرنا جائز نہیں۔ نظم وانتظام کے لیے گوشت حوالہ کرنے کا وقت اور دن متعین کرنے کی گنجائش ہے، مثلاً فلاں وقت گوشت بانٹا جائے گا؛ لیکن حصہ سے کم گوشت دینے کا معاملہ کرنا یا زبردستی کم دینا دونوں جائز نہیں۔ اصل تو یہی کہ ہرجانور کا گوشت علاحدہ طور پر اس کے حصہ داروں کے درمیان تقسیم کیا جائے؛ لیکن اگر دو جانوروں کا گوشت باہم خلط ہوجائے تو پھر مجبوراً دونوں جانوروں کے حصہ داروں کے درمیان تقسیم کیا جانا ناگزیر ہے، جس کی وجہ سے ایک جانور کے حصے داروں کے پاس دوسرے جانور کا گوشت پہنچ جانا مستبعد نہیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند