• عبادات >> ذبیحہ وقربانی

    سوال نمبر: 166291

    عنوان: قربانی کا خون پیڑ پودوں کی نشوونما کے لیے کیاریوں میں ڈالنے کا حکم

    سوال: درجہ ذیل تین سوالات میں شرعی رہنمائی فرمائیے ۔ قرآن و حدیث یا فقہی عبارات جہاں سے استدلال ہو وہ بھی ذکر فرمادیں تو عین نوازش ہوگی۔ سوال نمبر ۱: عید الاضحیٰ پر ہونے والی قربانی کا خون ہمارے یہاں ضائع نہیں کیا جاتا بلکہ اس بہتے ہوئے خون کو جمع کر کے کیاری میں پودوں پر ڈال دیا جاتا ہے ۔ اس سے وہ پودے اچھی نشو نما پاتے ہیں۔قربانی کے فورا بعد خون کچھ جَم کر ملائی جیسی شکل اختیار کر جاتا ہے اور کچھ اصل حالت میں ہی ہوتا ہے ، دونوں طرح کے خون کو کِیاری میں کھاد کے ساتھ ملا دیتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اُس بہتے ہوئے خون کو اس طرح استعمال میں لینا جائز ہے ؟ اور پھر اس خون ملی کھاد میں پکنے والے پھل و دیگر پودھے ، بیل میں لگنے والی سبزیاں وغیرہ استعمال کرنا جائز ہے ؟ بالخصوص وہ سبزیاں جو زمین کے اندر ہی ہوتی ہیں مثلا آلو وغیرہ کا کیا حکم ہے ؟ سوال نمبر۲: سفر شرعی کے لیے جو سوا ستتر کلو میٹر کا حکم ہے اس کی شروعات کہاں سے ہوگی؟ گھر سے نکلتے ہی یا فناء شہر سے نکلنے پر؟ نیز، ان شہروں میں پھر کیا حکم ہوگا جن کے بیچ کوئی خالی علاقہ ہی نہیں؟ امریکہ میں ایسے کئی شہر ہیں جو آپس میں ملے ہوئے ہیں۔ ایک روڈ کے بعد دوسرا روڈ شروع ہوجاتا ہے یہ والا روڈ دوسرا شہر اور وہ والا روڈ دوسرا۔ جس کی مثال ہمارے پاکستان کے اسلام آباد اور پنڈی بھی ہیں۔ایسے میں نمازوں کا حکم اور شرعی سفر کہاں سے شمار ہوگا؟ سوال نمبر۳: ہمارا گھر جس جگہ ہے وہ جگہ مین روڈ سے متصل ایک چوڑی گلی ہے جس میں گاڑیوں کے کئی شو روم ہیں اس کی پارکنگ پھر وہاں آنے والے گاہکوں کی پارکنگ اور پھر گلی کے ریہائشی حضرات کی پارکنگ۔ اور چونکہ مین روڈ سے متصل ہے تو راہ گیر کسی وجہ سے رُک جائیں تو وہ بھی یہاں پارک کردیتے ہیں ساتھ ہی بازار ہے اس کی بھی پارکنگ۔ غرض یہ کہ یہاں گاڑیاں کھڑی کرنے کا مسئلہ ہے ۔ اب ہوتا یہ ہے کہ ہم نے اپنی گاڑی کسی کام سے نکالی، جب واپس آئے تو جگہ پر کوئی اور تھا، ہم نے آگے کہیں کھڑی کردی۔ تو جس کی جگہ پر ہماری گاڑی کھڑی ہوئی ہے و ہ تنبیہ کے لیے کبھی ٹائر سے ہوا نکال دیتا ہے کبھی کوئی اور نقصان کردیتا ہے ۔یہاں ایسا ہر کوئی کرتا ہے ، جس کی جگہ یا جس کے گھر کے آگے کھڑی کردو ، وہ چھوڑتا نہیں ہے ۔ لیکن ہمارے گھر کے آگے جو کھڑ ا کر دے ہم اللہ کے ڈر سے کچھ کہتے نہیں کہ کسی اللہ کے بندے کو تکلیف کیسے دیں۔ اب معاملہ یہ ہوگیا ہے کہ سب کو پتا ہے یہ گھر کچھ نہیں کہے گا، لوگ تین تین دن کے لیے گاڑی ہمارے گھر کے باہر کھڑی کر جاتے ہیں اور ہم کچھ کر نہیں پاتے ۔ تو سوال یہ ہے کہ کیا دوسروں کی طرح ہمارے لیے بھی گنجائش ہے کہ تنبیہ کے طور پر ایسا کر سکیں؟ بہت بڑا نقصان نہیں، لیکن ٹائر سے ہوا نکالنا یا ایسا کچھ کردینا جس سے اُس کو اندازہ ہوجائے ۔

    جواب نمبر: 166291

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:182-33T/N=4/1440

    (۱): قربانی کے جانور کا خون بھی حرام وناجائز اور نجاست غلیظہ ہے؛ اس لییجس طرح یہ خون کسی جانور کو کھلانا یا چٹانا جائز نہیں، اسی طرح پیڑ پودوں کے نشو ونما میں ترقی کے لیے کیاری میں ڈالنا بھی جائز نہیں، یہ حرام وناپاک چیز سے فائدہ اٹھانے کی ایک شکل ہے(بہشتی زیور مدلل، ۹: ۱۰۶، مطبوعہ: کتب خانہ ختری متصل مظاہر علوم سہارن پور)؛ البتہ تیارشدہ پھل، سبزی وغیرہ حرام نہ ہوگی اگرچہ وہ مٹی کے اندر تیار ہوتی ہو؛ کیوں کہ ان پھلوں اور سبزیوں میں خون کا کوئی جزو اپنی ماہیت کے ساتھ نہیں پایا جاتا(فتاوی دار العلوم دیوبند، ۱۵: ۵۳۸، جواب سوال: ۱۴۰، مطبوعہ: مکتبہ دار العلوم دیوبند)۔

    حل أکل جدي غذي بلبن خنزیر؛ لأن لحمہ لا یتغیر، وما غذي بہ یصیر مستھلکاً لا یبقی لہ أثر (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الحظر والإباحة،۹:۴۹۱، ۴۹۲، ط:مکتبة زکریا دیوبند)، ومثلہ فی الفتاوی البزازیة علی ھامش الفتاوی الھندیة (کتاب الصید والذبائح،۳: ۳۵۹، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)، ومامات لا تطعمہ کلبا فإنہ خبیث حرام نفعہ متعذر (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصید،۱۰: ۶۷)، وحرم الانتفاع بھا ولو لسقي دواب أو لطین أو نظر للتلھي أو في دواء أو دھن أو طعام أو غیر ذلک الخ (المصدر السابق، کتاب الأشربة، ۱۰:۲۸)، قولہ: ”أو لطین“:أي: لبل طین، قولہ: ”أو غیر ذلک“: کامتشاط المرأة بھا لیزید بریق شعرھا أو الاکتحال بھا أو جعلھا في سعوط، تاترخانیة، ومنہ ما یأتي من الاحتقان بھا أو إقطارھا في إحلیل۔ قال الإتقاني: لأن ذلک انتفاع بالخمر وأنہ حرام الخ (رد المحتار)۔

    (۲): مسافت سفر کا شمار ، اس گاوٴں یا شہر کی آبادی ختم ہونے پر ہوگا، جہاں سے آدمی سفر پر روانہ ہورہا ہے خواہ شہر چھوٹا ہو یا بڑا، صحیح قول یہی ہے۔ اور اگر دو شہر آپس میں مل جائیں، یعنی: دونوں کی آبادیوں کے درمیان کوئی جنگل، کھیت وغیرہ نہ رہے اور ایک غلوہ کے بہ قدر خالی علاقہ تو وہ دونوں مسافرت کے باب میں ایک شمار ہوں گے اور مسافت سفر کا شمار اس شہر کی آخری آبادی سے ہوگا، جہاں سے آدمی نکل کر سفر پر جائے گا۔

    من خرج من عمارة موضع إقامتہ من جانب خروجہ… قاصداً مسیرة ثلاثة أیام ولیالیھا الخ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاة، باب صلاة المسافر، ۲: ۵۹۹-۶۰۱، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، وأشار إلی أنہ لا یشترط مفارقة ما کان من توابع موضع الإقامة؛ کربض المصر، وھو ما حول المدینة من بیوت ومساکن؛ فإنہ في حکم المصر، وکذا القری المتصلة بالربض فی الصحیح (رد المحتار، کتاب الصلاة، باب صلاة المسافر، ۲: ۵۹۹)،

    وھل یعتبر مجاوزة الفناء؟ إن کان بین المصر وفنائہ أقل من قدر غلوة، ولم یکن بینھما مزرعة، یعتبر مجاوزة الفناء أیضا، وإن کان بینھما مزرعة، أو کانت المسافة بین المصر وفنائہ قدر غلوة، یعتبر مجاوزة عمران المصر، وکذلک إذا کان ھذا الانفصال بین قریتین أو بین قریة ومصر، وإن کانت القری متصلة بربض المصر فالمعتبر مجاوزة القری ھو الصحیح (الفتاوی الخانیة علی ھامش الفتاوی الھندیة، کتاب الصلاة، باب صلاة المسافر، ۱: ۱۶۴، ۱۶۵، ط: المبطعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)، ومثلہ في خلاصة الفتاوی (خلاصة الفتاوی، کتاب الصلاة، الفصل الثاني والعشرون في صلاة المسافر، ۱: ۱۹۸، ط المکتبة الأشرفیة دیوبند)۔

    (۳): اگر آپ کے گھر کے سامنے کسی دوسرے کی گاڑی کھڑی ہو تو آپ اس کے کسی پہیہ کی ہوا نہیں نکال سکتے، شرعاً جائز نہیں۔ اور اگر قانونی طور پر آپ کو اپنے گھر کے سامنے اپنی گاڑی کھڑی کرنے کا حق ہے اور آپ دوسروں پر فوقیت رکھتے ہیں اور کھڑی ہوئی گاڑی ہٹاسکتے ہیں تو آپ جب اپنی گاڑی کسی ضرورت سے کہیں لے کر جائیں تو وہ جگہ گھیر کرجائیں ؛ تاکہ کوئی دوسرا اس جگہ گاڑی کھڑی ہی نہ کرے۔ اور اگر قانونی طور پر آپ کو یہ حق حاصل نہیں ہے تو آپ اور دوسرے لوگ برابر ہیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند