• عبادات >> ذبیحہ وقربانی

    سوال نمبر: 163753

    عنوان: كیا عقیقہ كا سارا گوشت خود استعمال كرسكتے ہیں؟

    سوال: محترم جناب مفتی صاحب مجھے آپ سے یہ معلوم کرنا ہے کہ میں ایک پرائیویٹ کمپنی میں کم آمدنی والا ملازم ہوں میرے چار بچے ہیں ، میری شادی کو تقریباً16 سال ہوچکے ہیں، میرے پاس اتنا پیسہ یا جمع پونجی نہیں کہ میں قربانی کر سکوں یا مجھ پر قربانی واجب آئے اور میں نے ابھی تک اپنے بچوں کا عقیقہ بھی نہیں کیا ہے ۔ اس بار میں نے یہ سوچا ہے اگر میں اس بار قربانی پر قربانی کے جانور میں سات حصہ لوں اور ہبہ کرلوں مگر خیال رہے کہ میں صاحب استظاعت نہیں ہوں تو میں اس قربانی میں عقیقہ کا حصہ ڈالوں یانہیں اور اگر حصہ ڈال بھی دوں تو اس میں سے گوشت بانٹنے کے حوالے سے کیا حکم ہے ؟ کیا میں اُن کو گوشت بانٹ سکتا ہوں جنہوں نے قربانی کی ہوئی ہو یا نہیں یا میں قربانی کی طرح اپنے پاس گوشت رکھ سکتا ہوں ؟ براہ کرم، قرآن و سنت کی روشنی میں میرے اس مسئلے کا حل بتائیں ۔ اللہ پاک آپ کو اس کا اجر عظیم عطا فرمائے ۔

    جواب نمبر: 163753

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:1191-968/B=11/1439

    (۱) قربانی کے بڑے جانور میں حصہ لینے سے بھی عقیقہ ادا ہوجاتا ہے، لہٰذا آپ بیٹے کی طرف سے دو اور بیٹی کی طرف سے ایک حصہ لیں۔

    (۲) اس سلسلے میں مستحب یہ ہے کہ گوشت کے تین حصے کرکے، ایک تہائی غریبوں کو صدقہ کردیا جائے، ایک تہائی اقرباء کے درمیان تقسیم کیا جائے اور ایک تہائی گھر میں رکھ لیں، البتہ اگر سارا گوشت گھر میں بھی پکالیں یا رکھ لیں تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ والأفضل أن یتصدق بالثلث ویتخذ الثلث ضیافة لأقربائہ وأصدقائہ ویدّخر الثلث ․․․ لو حب سالکل لنفسہ جاز (رد المحتار: ۹/ ۴۷۴، کتاب الأضحیة، ط: زکریا دیوبند) وکذا لو أراد بعضہم العقیقة عن ولد قد وُلِد لہ من قبل؛ لأن ذلک جہة التقرب بالشکر علی نعمة الولد (رد المحتار: ۹/ ۴۷۲، کتاب الأضحیة، ط: زکریا) سواء فرق لحمہا نیا أو طبخہ ․․․ واتخاذہ دعوة أولا․ رد المحتار: ۹/ ۴۸۵، کتاب الأضحیة/ قبیل باب الحظر والإباحة، ط: زکریا دیوبند)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند