India
سوال # 152555
Published on: Jul 19, 2017
جواب # 152555
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa: 1014-950/sd=10/1438
شریعت کی رو سے فلم لہو و لعب میں داخل ہے ، جس کی حرمت حدیث میں مذکور ہے ،نیز فلم دیکھنے میں ناچ گانے ، عریاں عورتوں کی تصویراور فواحش و محرمات کا ارتکاب کرنا پڑتا ہے ، جس پر شریعت میں سخت وعید وارد ہوئی ہے ،ایک حدیث میں ہے کہ گانا سننا نفاق کا سبب ہے ، ایک دوسری حدیث میں بدنظری کرنے والے پر لعنت وارد ہوئی ہے ۔
أما التلفزیون والفدیو، فلا شک فی حرمة استعمالہا بالنظر إلی ما یشتملان علیہ من المنکرات الکثیرة: من الخلاعة والمجون، والکشف عن النساء المتبرجات أو العاریات، وما إلی ذٰلک من أسباب الفسوق۔ (تکملة فتح الملہم، کتاب اللباس والزینة / باب تحریم تصویر صورة الحیوان ۴/۱۶۴مکتبة دار العلوم) ۔ وکرہ کل لہو، لقولہ علیہ الصلاة والسلام: “کل لہو المسلم حرام إلا ثلاثة”۔ (الدر المختار) قال العلامة ابن عابدین رحمہ اللّٰہ تعالیٰ: (قولہ: وکرہ کل لہو): أی کل لعب وعبث، فالثلاثة بمعنی واحد کما فی شرح التاویلات، والإطلاق شامل لنفس الفعل، واستماعہ کالرقص والسحریة والتصفیق وضرب الأوتار من الطنبور والبربط والرباب والقانون والمزمار والصنج والبوق، فإنہا کلہا مکروہة؛ لأنہا زی الکفار، واستماع ضرب الدف والمزمار وغیر ذٰلک حرام”۔ (الدر المختار، کتاب الحظر والإباحة / فصل فی البیع :۵۶۶/۹) عن جابر رضی اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: الغناء ینبت النفاق فی القلب کما ینبت الماء الزرع۔ رواہ البیہقی فی شعب الإیمان (مشکاة المصابیح، کتاب الآداب / باب البیان والشعر، الفصل الثالث ۴۱۱)عن الحسن مرسلاً قال: بلغنی أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: لعن اللّٰہ الناظر والمنظور إلیہ۔ رواہ البیہقی فی شعب الإیمان (مشکاة المصابیح / باب النظر إلی المخطوبة، الفصل الثالث )
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
اس موضوع سے متعلق دیگر سوالات
قبلہ میرا سوال یہ ہے کہ شریعت کے اعتبار سے توہین اسلام اور گستاخ رسول کی کیا سزا ہونی چاہیے؟
یہ صحیح ہے کہ فطری مرتد کو اس دنیا میں قتل کردیاجائے گا لیکن میں یہ جاننا چاہتاہوں کہ اگر فطری مرتد (مرد) اخلاص سے توبہ کرلے تو کیا اللہ تعالی قیامت کے د ن اسے معاف کر یں گے؟ کیا اللہ تعالی صرف ملی مرتد کاتوبہ قبول کرتے ہیں ؟ کیا اللہ کے نزدیک فطری مرتد اور ملی مرتد کے توبہ کے درمیان کوئی فرق ہے؟ کیا قرآ ن اور حدیث میں اس کے بارے میں کوئی تذکرہ ہے؟
ایک بہت اہم مسئلہ ہے جس پر پورے محلہ میں کشیدگی ہے؛ اس لیے اس کا جواب جلد دیں ، مہربانی ہوگی۔مسجد کے دادر ہیں جس کے بارے میں پتہ چلا ہے کہ وہ کام کرواتے ہیں جو ایک عورت کے ساتھ ہوتا ہے، مطلب یہ کہ وہ کام جو لوط علیہ السلام کی قوم میں عام ہوگیا تھا۔ چشم دید گواہ ہیں۔ تو اس کے لیے کیا حکم ہے؟ وہ مسجد میں بھی آتے ہیں ۔
اسلام کو چھوڑ کر جانے والے کے بارے میں قرآن کا کیا حکم ہے؟ کیا وہ واجب القتل ہے؟ تفصیل سے قرآن اور سنت کی روشنی میں جواب دیں۔
ہمیں حدیث میں حکم یہ ہے کہ جب برائی کو دیکھو تو اسے ہاتھ سے روکو۔ اب جب ہمیں یہ حکم ہے تو کیا ہم زانی کو قتل کرسکتے ہیں اورہمارے پاس تمام ثبوت بھی موجود ہیں؟ اور اگر یہ صرف حکومت کا کام ہے تو ہماری حکومت نے توزنا بالجبر کو جائز قرار دے دیا ہے۔ تو کیا اب ہم اس انتظارمیں بیٹھ جائیں کہ کوئی اللہ کا ولی حکمراں بنے گا تو شریعت کو نافذ کرے گا، اور پھر وہ شریعت کے قانون کے مطابق اسے سزا دے گا۔تو کیا ہم اسے چھوڑ دیں کو جو کچھ مرضی میں ہے کرتا رہے؟ کوئی اسے روکنے والا نہ ہو اور قانون بھی خود اسے اس کام کی چھوٹ دے رہا ہو۔ تو برائے مہربانی میری تسلی کے لیے قرآن و حدیث کے مطابق تفصیلی جواب مرحمت فرمائیں۔
میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ اگر کوئی مسلمان قوم لوط والا عمل کرے اور یہ اس کا مسلسل کام ہو اور وہ شخص مسلم ہو تو اس پر کیا حکم ہوگا؟
لڑکے کے ساتھ بدکاری کی اسلام میں کیا سزا ہے؟ اوراس گناہ سے توبہ کا کیا طریقہ ہے؟
ایک شخص شادی کے بعد زنا کرتا ہے اور اس پر حد جاری ہوتی ہے تو کیا حکومت کے علاوہ کوئی دوسرا اس کو قتل کرسکتا ہے؟ اور یہ بھی معلوم ہے کہ اگر کسی عدالت میں جاتا ہے تو وہ رشوت دے کر رہا ہوجائے گا اور اس کے بعد بھی یہی کام کرے گا تو پھر؟ اور اگر کوئی دوسرا اسے قتل کر دے تو وہ لوگوں کی نظر میں تو مجرم ہے مگر کیا وہ خدا کی نظر میں بھی مجرم رہے گا یا نہیں ؟ کیوں کہ وہ شخص فتنہ ہے اور ہمیں تو حکم ہے کہ برائی کو ہاتھ سے روکنے کی طاقت رکھتے ہو تو اسے روکو۔
پچھلے دنوں آج ٹی وی پر ایک دینی پروگرام جس کا نام سفر ہدایت ہے سنا۔ اس میں ایک عالم صاحب ، ایک مرتدکے بارے میں (جواسلام لانے کے بعدپھر جائے)ایک بحث کررہے تھے۔ ان کے کہنے کے مطابق مرتد کو قتل کرنا واجب یا جائز نہیں، اور اس پر انھوں نے یہ دلیل دی کہ اس وقت کا اسلام جو ہے وہ مختلف فرقوں میں تقسیم ہے اور ہم میں سے کوئی بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ کس کے فرقے کا دین 100فیصد اس وقت کے اسلام سے ملتا ہے جو کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تھا۔ جب کہ میں بچپن سے یہی سنتے آرہا ہوں کہ مرتد کو مارنا واجب اور فرض ہے۔ آپ اس بارے میں رہنمائی کریں۔