متفرقات >> دیگر
سوال نمبر: 174398
جواب نمبر: 174398
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 287-288/H=03/1441
فتاویٰ کی کتابوں میں بسااوقات ایک جگہ مسئلہ مطلق ذکر کیا جاتا ہے جب کہ دوسری جگہ اس کے قیود و شرائط ذکر کیے جاتے ہیں اس لئے غیر عالم کے لئے محض اردو فتاویٰ دیکھ کر مسئلہ بتانا خلاف احتیاط ہے، بلکہ وہ پوچھنے والے کو معتبر عالم کے پاس بھیج دے یا خود کسی معتبر عالم سے مسئلہ معلوم کرکے بتادے، اسی طرح اگر کوئی مدرسہ ایسا ہو جہاں کوئی عالم نہ ہو تو اس مدرسے میں آنے والے سائل کو کسی معتبر عالم کے پاس بھیج دے خود مسئلہ نہ بتائے؛ البتہ اگر کوئی مسئلہ ایسا ہوجو غیر اہم ہو اور وہ مسئلہ سب کو معلوم بھی ہو تو اس طرح کے مسئلہ بتانے میں بظاہر کوئی حرج نہیں ہے۔ وقد رأیت فی فتاوی العلامة ابن حجر سئل في شخص یقرأ ویطالع في الکتب الفقہیة بنفسہ ، ولم یکن لہ شیخ ویفتي ویعتمد علی مطالعتہ فی الکتب ، فہل یجوز لہ ذلک أم لا، فأجاب بقولہ: لایجوز لہ الإفتاء بوجہ من الوجوہ ۔ (شرح عقود رسم المفتي، ص: ۴۴، ط: المکتبہ العبدیہ)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند