• متفرقات >> دیگر

    سوال نمبر: 172937

    عنوان: جس امام کی وجہ سے محلہ میں پارٹی بندی ہو كیا اسے معزول كیا جاسكتا ہے؟

    سوال: کیا فرماتے ہیں علماء کرام قران و سنت کی روشنی میں:۔ ہم باشندگان محلہ نے مسجد انتظامیہ کی سربراہی میں ایک امام صاحب آج سے چھے 6 سال قبل مسجد جامعہ قدیم کے لیے مقرر کیا۔اگر چہ امام صاحب ابتدائی ایام سے ہی کچھ بدعات کے کام انجام دے رہا تھا۔مگر اس وقت کی مسجد انتظامیہ کے حمایت کی وجہ سے امام موصوف سے وہ کام چھڑوانا ناممکن بن گیا۔ آج سے تقریباً دو سال قبل مسجد انتظامیہ کی تبدیلی کے بعد امام موصوف کو ایسا لگا کہ نئی انتظامیہ اسے ان بدعات پر روک لگائے گی جس کی وجہ سے اس نے ایسی پالسی اختیار کی کہ محلہ پورا دو حصوں میں بٹ گیا اور ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بنکر مسجد میں لڑائی جھگڑے شروع ہوے اور مسجد کا تقدس پامال ہوتا رہا اور اب محلہ کے کئی مستقل نمازی ترک مسجد کر رہے ہے ۔ امام موصف کو ہم نے مسجد کا کواٹر رہنے کے لیے دیا ہے لیکن امام صاحب نے وہان پیر مریدی شروع کی اور وہاں صرف غیر محرم عورتیں آتی رہتی ہے جسکی وجہ سے بستی کا ماحول خراب ہو گیا اور لوگ بدعت اور شرک میں مبتلا ہو گیے ۔جب امام صاحب کو انتظامیہ اور بستی کے کچھ ذی عزت بزرگوں نے یہ بندھ کرنے کو کہا اور بدلے میں کفافہ میں اضافہ کرنے کا وعدہ کیا تو امام صاحب نے یہ کہکر انکار کر دیا کہ جب عورتیں ڈاکٹر کے پاس علاج کے لیے جا سکتی ہیں تو میرے پاس کیوں نہیں آ سکتی اور اُن بزرگ حضرات پر جھوٹا الزام لگایا کہ انہوں نے مجھے دھمکی دی اور لگوں میں انکی بے عزتی کر کے لگوں کو ان کے خلاف بھڑکایا۔ امام موصوف نے مکمل حافظ قران ہونے کا دعوی کیا تھا لیکن جب اس سال امام صاحب کو قرانی تراویح پڑھانے کے لیے کہا گیا تو امام صاحب نے رضامندی دکھا کر سامع کی درخواست کی اور ہم نے مدرسہ سے ایک حافظ صاحب سامع کے لیے مقرر کیا۔ لیکن بعد میں عین موقع پر امام صاحب نے قرانی تراویح پڑھانے سے انکار کر دیا۔اور جب انتظامیہ نے حافظ صاحب جو بطور سامع لایے گیے تھے ان کو تراویح پڑھانے کو کہا اور امام موصوف کو بحیثیت سامع اپنا فریضہ انجام دینا تھا۔مگر امام موصوف کا حافظ ہونا اس وقت صاف نظر آیا جب ہمیں سامع کے لیے بھی دوسرا حافظ صاحب لانا پڑھا۔ امام صاحب کے اس رویہ اور غلط بیانی سے محلہ داروں میں نفرت پھیل گئی اور ہر گلی کوچے میں امام صاحب کی بر خلافی ہوتی رہتی ہے ۔ امام صاحب خود بھی ان حالات میں اپنے آپ کو غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں اور بھری مسجد میں کہا کہ مجھے اپنی جان اور عزت کی سکیورٹی چاہیے جس پر انتظامیہ نے ذمہ داری لینے سے منع کر دیا۔ امام صاحب مسجد انتظامیہ کے پاس استفاء دے چکے ہے اور انتظامیہ کو نیا امام لانے کو کہا جب انتظامیہ نے نیا امام مقرر کیا اور مسجد مین اعلان کیا تو امام موصوف نے غلط بیانی کر کے مسجد میں ہنگامہ کروایا اور اپنے کچھ ساتھیوں کے کہنے پر پھر وہا ہی رہا۔امام صاحب کے والدین بھی امام صاحب کو یہاں امامت کی اجازت نہیں دے رہے ہیں اور انہوں نے بھی انتظامیہ کو نیا امام لانے کو کہا پر امام صاحب پر اپنے والدین کا بھی اثر نہیں ہوتا۔ امام صاحب پر اور بھی بہت سارے الزامات ہے ۔ اب برائے کرم ہمیں رہنمائی فرمائیں کہ کیا ایسے شخص کے پیچھے ان حالات میں اقتدا کر سکتے ہیں؟

    جواب نمبر: 172937

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 1382-187T/B=12/1440

    صاحب درمختار نے لکھا ہے کہ امامت کے مقاصد میں سے دو مقصد اہم ہیں۔

    (۱) امام کے ذریعہ تمام مصلیوں کے درمیان اتحاد و اتفاق اور اُلفت و محبت پیدا ہو۔

    (۲) امام کے ذریعہ لوگ زیادہ سے زیادہ مسائل سیکھیں اور دینی معلومات حاصل کریں۔

    اگر یہ دونوں مقصد امام سے حاصل نہ ہو رہے ہوں تو امام کو از خود امامت سے مستعفی ہو جانا چاہئے۔ جس امام کی وجہ سے محلہ میں پارٹی بندی ہو وہ امامت کے لائق نہیں اگر وہ خود سے استعفا نہیں دیتا تو مسجد کے متولی اور کمیٹی والوں کوچاہئے کہ موقعہ محل دیکھ کر خوش اسلوبی کے ساتھ اسے امامت سے برطرف کر دیں، تاکہ نماز جیسا اہم فریضہ سب مصلیوں کا صحیح طور پر ادا ہو۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند