• متفرقات >> دیگر

    سوال نمبر: 171090

    عنوان: رمضان کی مبارکباد شرعی حیثت؟

    سوال: آجکل لوگ رمضان کی مبارکباد دیتے ہیں اور عیدکی ،اس کا شرعی حکم کیا ہے؟ کیا صحابہ تابعین یا اسلاف سے ثابت ہے یا نہیں؟

    جواب نمبر: 171090

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:893-78T/sd=10/1440

    .عید کی مبارک باد دینا جائز ہے ، صحابہ کرام سے اس کا ثبوت ملتا ہے ؛ البتہ رمضان کی مبارک باد دینے کی صراحت نہیں مل سکی ،بظاہر رمضان شروع ہونے کے بعد ایک دوسرے کو برکت کی دعا دینے میں بھی حرج معلوم نہیں ہوتا؛ لیکن ثبوت کے بغیر اس کو مسنون و مستحب عمل نہیں کہا جاسکتا ، اس لیے اس کو عمل متوارث نہیں سمجھنا چاہیے، اگر کوئی برکت کی دعا دے، تو جواب میں بھی برکت کی دعا دیدی جائے، لیکن اس کی حیثیت باضابطہ مستقل عمل کی نہ بنائی جائے جیساکہ سننے میں آیا ہے کہ بعض علاقوں میں ہر دن مستقل روزہ وافطاری کی مبارکباد دینے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔

    قال الحصکفی : والتہنئة بتقبل اللہ منا ومنکم لا تنکر (قولہ : لا تنکر ) خبر قولہ "والتہنئة"، وإنما قال کذلک؛ لأنہ لم یحفظ فیہا شیء عن أبی حنیفة وأصحابہ، وذکر فی القنیة: أنہ لم ینقل عن أصحابنا کراہة، وعن مالک: أنہ کرہہا، وعن الأوزاعی: أنہا بدعة، وقال المحقق ابن أمیر حاج: بل الأشبہ أنہا جائزة مستحبة فی الجملة، ثم ساق آثاراً بأسانید صحیحة عن الصحابة فی فعل ذلک، ثم قال: والمتعامل فی البلاد الشامیة والمصریة "عید مبارک علیک" ونحوہ، وقال: یمکن أن یلحق بذلک فی المشروعیة والاستحباب؛ لما بینہما من التلازم، فإن من قبلت طاعتہ فی زمان کان ذلک الزمان علیہ مبارکاً، علی أنہ قد ورد الدعاء بالبرکة فی أمور شتی؛ فیوٴخذ منہ استحباب الدعاء بہا ہنا أیضاً" اہ۔( الدر المختار مع رد المحتار: ۱۶۹/۲، ط: دار الفکر، بیروت)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند