• متفرقات >> دیگر

    سوال نمبر: 169495

    عنوان: ایک ہی آدمی کا بائع اور مشتری بننا

    سوال: سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے کے بارے میں کہ کسی نے مجھے وکیل بنا یا کہ میں اس کے لیے کو ی? سامان خرید کر رکھ لوں اور میں ایسا کیا اب وہ کہ رہا ہے کہ ابھی بیچو تو کیا میں اس سامان کو خود خرید سکتا ہوں؟ اس حال میں میں وکیل بالبیع بھی ہوگا اور مشتری بھی، یاد رہے کہ وہ شخص دوسرے شہر میں ہے ۔برائے مہربانی حوالے کے ساتھ فتویٰ بھیج دیں شکریہ۔ جزاکم اللہ خیرا

    جواب نمبر: 169495

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:797-830/L=9/1440

    ایک ہی آدمی کا بائع اور مشتری بننا درست نہیں؛ لہذا صورتِ مسئولہ میں آپ کے لیے خود اس سامان کو خریدنا درست نہ ہوگا ؛البتہ اگر آپ اس کے کہنے پر وہ سامان کسی کے حوالے کردیں اور جب وہ قبضہ کرلے تو آپ اس سے دوبارہ خرید لیں تو اس کی گنجائش ہو گی۔

    وفی السراج: لو صرح بہم جاز إجماعا إلا من نفسہ وطفلہ وعبدہ غیر المدیون.(الدرالمختار) (قولہ إلا من نفسہ) وفی السراج: لو أمرہ بالبیع من ہؤلاء فإنہ یجوز إجماعا إلا أن یبیعہ من نفسہ أو ولدہ الصغیر أو عبدہ ولا دین علیہ فلا یجوز قطعا وإن صرح بہ الموکل اہ منح. الوکیل بالبیع لا یملک شراء ہ لنفسہ؛ لأن الواحد لا یکون مشتریا وبائعا فیبیعہ من غیرہ ثم یشتریہ منہ، وإن أمرہ الموکل أن یبیعہ من نفسہ وأولادہ الصغار أو ممن لا تقبل شہادتہ فباع منہم جاز بزازیة کذا فی البحر، ولا یخفی ما بینہما من المخالفة، وذکر مثل ما فی السراج فی النہایة عن المبسوط، ومثل ما فی البزازیة فی الذخیرة عن الطحاوی، وکأن فی المسألة قولین خلافا لمن ادعی أنہ لا مخالفة بینہما.(الدر المختار مع رد المحتار:8/257،فصل لایعقد وکیل البیع والشراء،ط:زکریا دیوبند)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند