• متفرقات >> دیگر

    سوال نمبر: 169104

    عنوان: لفظ مولانا کا استعمال مخلوق کے لئے

    سوال: کیا فرماتے ہیں اولیائکرام وہ مفتیان عظام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ زید نے کسی عالم کو مخاطب کرتے ہوئے لفظ مولانا کا استعمال کیا آیا وہ جاننا چاہتا ہے کہ لفظ مولانا کا اطلاق عوام یا کسی عالم کے لئے کہنا شرعا جائز ہے یا نہیں؟ قران وحدیث کی روشنی میں جواب مرحمت فرماکر ممنون و مشکور ہوں ۔

    جواب نمبر: 169104

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:731-69/L=7/1440

    عربی زبان میں مولیٰ کے متعدد معنی آتے ہیں، مثلاً: آزاد کردہ غلام، دوست، مقتدیٰ اور مددگار، اَب موقع محل کے اعتبار سے معنی کی تعیین کی جاتی ہے، جب اُس کی نسبت اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف ہوگی تو اُس سے مددگار کے معنی مراد ہوں گے، جب اُس کی نسبت اپنے کسی قریبی عزیز کی طرف ہوگی تو دوست کے معنی مراد ہوں گے، اور علماء کو جو مولانا کہا جاتا ہے اُس میں مقتدیٰ کے معنی پیش نظر ہوتے ہیں؛ لہٰذا اِس معنی کے اعتبار سے کسی عالم کو مولانا کہنے میں شرعاً کوئی حرج نہیں ہے، اِس میں شرک وغیرہ کا کوئی شائبہ نہیں پایا جاتا؛کیونکہ مولی جب مخلوق کے لئے استعمال ہوتو اس سے وہ معنی مراد نہیں ہوتے جو خالق کے لئے استعما ل کے وقت مراد ہوتے ہیں،صدیوں سے علماء کے طبقہ میں اِس لفظ کا استعمال بلا نکیر جاری ہے۔نیز احادیث وغیرہ میں غیراللہ کے لیے ”مولانا“ کا لفظ استعمال ہوا ہے ۔

    عن أبی سریحة، أو زید بن أرقم - شک شعبة - عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال: من کنت مولاہ فعلی مولاہ : ہذا حدیث حسن غریب.(سنن الترمذی، أبواب المناقب / مناقب علی بن أبی طالب ۲/۲۱۲)

    عن ریاح بن الحارث، قال: جاء رہط إلی علی بالرحبة فقالوا: السلام علیک یا مولانا قال: کیف أکون مولاکم وأنتم قوم عرب؟ قالوا: سمعنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یوم غدیر خم یقول: " من کنت مولاہ، فإن ہذا مولاہ " قال ریاح: فلما مضوا تبعتہم، فسألت من ہؤلاء؟ قالوا: نفر من الأنصار فیہم أبو أیوب الأنصاری .( مسند الإمام أحمد بن حنبل:38/541، الناشر: مؤسسة الرسالة)

     أَنْتَ مَوْلانا أی مالکنا وسیدنا، وجوز أن یکون بمعنی متولی الأمر وأصلہ مصدر أرید بہ الفاعل.(روح المعانی :2/68، الناشر: دار الکتب العلمیة - بیروت)

    وفی الریاض عن رباح بن الحارث قال: جاء رہط إلی علی بالرحبة فقالوا: السلام علیک یا مولانا، فقال کیف أکون مولاکم وأنتم عرب؟ قالوا: سمعنا رسول اللہ - صلی اللہ علیہ وسلم - یقول یوم غدیر خم: " من کنت مولاہ فعلی مولاہ " قال رباح بن الحارث: فلما مضوا تبعتہم فسألت من ہؤلاء؟ قالوا: نفر من الأنصار فیہم أبو أیوب الأنصاری؟ أخرجہ أحمد. ( مرقاة ۳/۹۴۱۱، ط:دار الکتب العلمیة بیروت)

     وفی النہایة: المولی یقع علی جماعة کثیرة فہو الرب والمالک والسید والمنعم والمعتق والناصر والمحب والتابع والخال وابن العم والحلیف والعقید والصہر والعبد والمعتق والمنعم علیہ، وأکثرہا قد جاء ت فی الحدیث فیضاف کل واحد إلی ما یقتضیہ.الحدیث الوارد فیہ (مرقاة المفاتیح ۲/۷۴۱۱ط:دار الکتب العلمیة بیروت)

    ولو قال لأستاذہ مولانا لا بأس بہ وقد قال علی - رضی اللہ عنہ - لابنہ الحسن - رضی اللہ عنہ - قم بین یدی مولاک عنی أستاذہ. وکذا لا بأس بہ إذا قال لمن ہو أفضل منہ.(الفتاوی الہندیة 5/ 378)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند