• متفرقات >> دیگر

    سوال نمبر: 168747

    عنوان: اختلاف رائے کی صورت میں شرعیت کا حکم؟

    سوال: ایک ذہنی الجھن دور کرنے کے لیے آپ حضرات کی خدمات درکار ہے ۔ امید ہے بفضل تعالیٰ میرے سوال کاتسلی بخش جواب دیا جائے گا۔ الحمد للہ جب سے دارلعلوم دیوبند کے دارلافتاء کے علمی خزانوں سے فیضیاب ہونے کا موقع ملا ہے علم ِ دین کی طلب بڑھنے لگی ہے ۔ میں تسلسل سے دارلعلوم دیوبند کے دارلافتاء سے شائع ہونے والے مسائل سے آگاہی حاصل کرتی ہوں۔ اسی شوق نے مجھے پاکستان میں جامعة الرشید کے آن لائن چلنے والے پروگرام ( آپ کے مسائل کا حل) سے بھی آگاہی د ی اور ساتھ ہی درس قرآن ڈاٹ کام سے بھی آن لائن چلنے والے پروگرام (مسائل کا حل) جسے جامعة الصفہ کے مفتی زبیر صاحب پیش کرتے ہیں اس سے بھی استفادہ کرتی ہوں۔ کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک ہی سوال کے جواب میں اختلاف رائے سامنے آتا ہے اور دومتضاد جوابات آتے ہیں۔ دیوبند کے علماء کا جواب الگ ہوتا ہے اور پاکستان کے علما ئکا جواب الگ ہوتا ہے ۔ ایسی صورت میں سوال کرنے والا کس کی رائے پر عمل کرے ؟ دونوں طرف قابل اعتماد علماء ہیں اور ہر ایک کے پاس دلیل موجود ہے ۔ کیا ا یسی صورت میں سوال کرنے والا اختلاف سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے حالات اور مرضی کے موافق دیے جانے والے فتوے پر عمل کرسکتا ہے ؟ کہیں ایسا کرنا دین میں نفس اور خواہشات کی اتباع وپیروی تو نہیں ہو جائیگا۔ یا پھر وہ ہر مسلئے کے حل کے لیے کسی ایک طرف کے علماء سے ہی استفادہ کرے اور دوسرے علماء کے علم سے فیض حاصل نہ کرے ۔ اس سلسلے میں رہنمائی کریں کیونکہ یہ مسلئہ تقریبا سب کے ساتھ ہے ۔

    جواب نمبر: 168747

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 634-579/M=06/1440

    ایسی صورت میں جب کہ ایک ہی مسئلے کے جواب میں اپنے مسلک کے علماء و مفتیان کرام کے درمیان اختلاف رائے ہو اور ہر طرف قابل اعتماد علماء ہوں اور ہر ایک کے پاس دلائل موجود ہوں تو جو اُن میں افقہ و اعلم ہوں ان کے فتوے پر عمل کرنا چاہئے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند