• متفرقات >> دیگر

    سوال نمبر: 167980

    عنوان: خرید وفروخت كی ایك شكل جو در حقیقت رہن ہے؟

    سوال: میرے چچاؤں (والد صاحب اور ان کے بھائی) نے ایک زمین خریدی تھی، ہمارے ایک چچا نے ہمارے حصے کی زمین خرید لی تھی (کیوں کہ اس وقت ہم غریب تھے)اس وعدہ پر کہ جب کبھی ہم چاہیں پیسہ دے کر وہ زمیں حاصل کرسکتے ہیں، کچھ برسوں کے بعد جب ہم نے اس زمین کا مطالبہ کیا تو چچا نے کہا کہ میں وعدہ پورا نہیں کرسکتا، اور انہوں نے تمام زمین پر قبضہ کرلیا، اور اب انہوں نے اس زمین کے ایک حصے کو مسجد کے لیے آفر کردیاہے، سوال یہ ہے کہ کیا اس زمین پر مسجد بنائی جاسکتی ہے جس کودھوکہ دے کر قبضہ کیا گیا ہو؟ کیا شریعت کے مطابق یہ درست ہے؟ براہ کرم، جواب دیں۔

    جواب نمبر: 167980

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 619-585/B=06/1440

    آپ کے چچا نے جو زمین آپ کے حصہ کی خریدی ہے اور اس وعدہ کے ساتھ جب آپ چچا کو زمین کے پیسے دیدیں گے تو چچا آپ کی زمین واپس کردیں گے۔ یہ درحقیقت بیع نہیں ہے۔ بلکہ رہن ہے یعنی آپ کی زمین چچا کے یہاں رہن (گروی) رکھی ہوئی ہے۔ لہٰذا چچا کو چاہئے کہ آپ سے پیسے لے کر زمین آپ کو حسب وعدہ واپس کردیں۔ وہ زمین شیء مرہون ہے اور مرہونی زمین مسجد کے لئے دینا راہن کی مرضی و اجازت کے بغیر جائز نہیں۔ اس زمین پر مسجد بنانا بھی جائز نہیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند