• متفرقات >> دیگر

    سوال نمبر: 167891

    عنوان: انگلیوں کے کڑاکے نکالنا

    سوال: اکثر لوگ کسی سوچ یا فکر میں غم ہو کر انگلیوں کے کڑاکے نکالتے ہیں اور کبھی ایسی حرکتیں مسجد میں بھی دیکھنے کو ملتی ہیں، کیا شرعی طور پر اس کی کوئی ممانعت ہے ؟ برائے کرم رہبری فرمائیں۔

    جواب نمبر: 167891

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:485-458/L=5/1440

    نماز میں مشغول رہتے ہوئے یا نماز کا انتظار کرتے ہوئے انگلیاں چٹخانا مکروہ ہے ؛البتہ خارجِ نماز ضرورتاًانگلیاں چٹخانے میں مضائقہ نہیں، گو یہ بھی اچھا نہیں ہے۔

    عَنْ عَلِیٍّ، أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَا تُفَقِّعْ أَصَابِعَکَ وَأَنْتَ فِی الصَّلَاةِ(سنن ابن ماجہ: 68 باب مایکرہ فی الصلاة )

    (قولہ وفرقعة الأصابع) ہو غمزہا أو مدہا حتی تصوت وتشبیکہا ہو أن یدخل أصابع إحدی یدیہ بین أصابع الأخری بحر (قولہ للنہی) ہو ما رواہ ابن ماجہ مرفوعا لا تفرقع أصابعک وأنت تصلی " وروی فی المجتبی حدیثا أنہ نہی أن یفرقع الرجل أصابعہ وہو جالس فی المسجد ینتظر الصلاة وفی روایة وہو یمشی إلیہا وروی أحمد وأبو داود وغیرہما مرفوعا إذا توضأ أحدکم فأحسن وضوئہ ثم خرج عامدا إلی المسجد فلا یشبک بین یدیہ فإنہ فی صلاة " ونقل فی المعراج الإجماع علی کراہة الفرقعة والتشبیک فی الصلاة. وینبغی أن تکون تحریمیة للنہی المذکور حلیة وبحر (قولہ ولا یکرہ خارجہا لحاجة) المراد بخارجہا ما لیس من توابعہا لأن السعی إلیہا والجلوس فی المسجد لأجلہا فی حکمہا کما مر لحدیث الصحیحین لا یزال أحدکم فی صلاة ما دامت الصلاة تحبسہ " وأراد بالحاجة نحو إراحة الأصابع، فلو لدون حاجة بل علی سبیل العبث کرہ تنزیہا.(رد المحتار:/۲4۰۹ط:زکریا دیوبند)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند