• متفرقات >> دیگر

    سوال نمبر: 166107

    عنوان: سودی قرض لینے والوں سے مسجد یا مدرسہ کے لیے چندہ لینا اور ایسی مسجد میں نماز پڑھنا کیسا ہے؟

    سوال: ہمارے محلے میں کچھ کمپنیاں سود سے پیسے چلاتی ہے جس میں تقریباً پورا محلہ سودی لون لینے میں شامل ہے کیا اس طرح کے محلے میں مسجد کی تعمیر یا د یکھ بال کے لیے چندہ لینا جائز ہے جب کہ چندہ لینے والا بھی یہ سب جانتا ہے کہ جہاں سے وہ چندہ لے رہا ہے وہ سودی لون لینے والا گھر یا محلہ ہے ؟ اور کیا حس مسجد کی د یکھ بال اسی طرح کے سودی لون لینے والے محلے سے ہوتی ہے وہاں کی مسجد میں نماز پڑنا کیسا ہے ؟ جب کہ وہاں سے کچھ دور حلال پیسوں سے تعمیر کی ہوئی مسجد کا علم بھی ہو؟

    جواب نمبر: 166107

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:132-139/N=3/1440

    سودی قرض لینا یا دینا دونوں شریعت میں حرام وناجائز اور لعنت کے کام ہیں اور قرض دینے والے کوسود کے نام سے جو اضافہ ملتا ہے یا دیا جاتا ہے، وہ خالص حرام اور گندہ مال ہے؛ لیکن قرض لینے والے کو قرض کے طور پر جو پیسے ملتے ہیں، وہ قبضہ کے بعد اس کی ملک ہوجاتے ہیں اور وہ حرام نہیں ہوتے اگرچہ وہ حرام ذریعہ (سودی قرض ) سے حاصل کیے گئے ؛ اس لیے سودی قرض لینے والے اگر اپنے جائز مال سے مسجد یا مدرسہ کو چندہ دیتے ہیں تو وہ حرام نہیں اور ایسی مسجد میں نماز بھی بلا کراہت جائز ہے ؛ لیکن چوں کہ سودی قرض سخت نحوست وبے برکتی کا باعث ہوتا ہے؛ اس لیے مسلمانوں کو سودی قرض سے سخت اجتناب کرنا چاہیے اور ذمہ داران مسجد ومدرسہ بھی اگر سودی قرض میں ملوث لوگوں کا چندہ نہ لیں تو بہتر ہے۔

    عن جابر بن عبد اللّٰہ رضي اللّٰہ عنہما قال: لعن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم آکل الربوا وموٴکلہ وکاتبہ وشاہدیہ، وقال: ہم سواء (الصحیح لمسلم، ۲: ۷۲، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)، وأما حکم القرض فھو ثبوت الملک للمستقرض فی القرض للحال وثبوت مثلہ في ذمة المستقرض للمقرض للحال وھذا جواب ظاہر الروایة، وروي عن أبي یوسف فی النوادر: لا یملک القرض بالقبض ما لم یستھلک الخ (بدائع الصنائع، کتاب القرض، فصل في حکم القرض۱۰:۶۰۰، ط: دار الکتب العلمیة بیروت)، فیصح استقراض الدراھم والدنانیر الخ (التنویر مع الدر والرد، ۷: ۳۸۹، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، والقرض لایتعلق بالجائز من الشروط فالفاسد منھا لا یبطلہ ولکنہ یلغو شرط رد شییٴ آخر فلو استقرض الدراھم المکسورة علی أ ن یوٴدي صحیحاً کان باطلا (المصدر السابق، ص،۳۹۴)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند