متفرقات >> دیگر
سوال نمبر: 159275
جواب نمبر: 159275
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:762-638/L=6/1439
تحقیق کے لیے پوچھنا ضروری نہیں دیگر قرائن سے بھی اس کا پتہ لگایا جاسکتا ہے ،اور جب تک علم نہ ہوسکے نماز کے فساد کا حکم نہ ہوگا؛البتہ احتیاط کرنا بہرحال بہتر ہوگا ،اور بریلوی امام کی اقتداء میں تو ویسے بھی نماز مکروہ ہوتی ہے ؛اس لیے اگر قریب میں کوئی ایسی مسجد ہو جس کا امام صحیح العقیدہ ہو تو اس کی اقتداء میں ہی نماز ادا کی جائے ،سخت مجبوری میں ہی بریلوی یا غیر مقلد امام کی اقتداء میں نماز ادا کی جائے،جبکہ ان کی طرف سے کسی ایسی چیز کے صدور کا علم نہ ہو جو مقتدی کے ڑعم میں مفسد ہو۔ لکن في وتر البحر: إن تیقن المراعاة لم یکرہ، أو عدمہا لم یصح، إن شک کرہ․ (الدر المختار مع الرد: ۲/ ۳۰۲، باب الإمامة)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند