• متفرقات >> دیگر

    سوال نمبر: 158113

    عنوان: کسی شخص کو منحوس سمجھنا

    سوال: کسی شخص کو منحوس سمجھنا یا یہ سوچنا کہ اس کے پاس کھڑے ہونے سے کام خراب ہو جاتاہے ، کتنا بڑا گناہ ہے ؟

    جواب نمبر: 158113

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:532-439/L=4/1439

    کسی شخص ،گھر یا ساعت کو منحوس سمجھنا درست نہیں ،نحوست کا تصور زمانہء جاہلیت کے عقائدِ باطلہ اور توہمات میں سے ہے ،شریعت نے اس کی نکیر فرمائی ہے ؛لہذا جو کچھ بھی حالات وغیرہ پیش آئیں اس کو منجانب اللہ سمجھنا چاہیے ،کسی خاص شخص کی طرف اس کو منسوب کرنا درست نہیں۔ عن أبي ہریرة رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لا عدوی ولا ہامة ولا طیرة۔ (صحیح مسلم ۲/۲۳۱) التطیر التشاؤم، وأصلہ الشيء المکروہ من قول أو فعل أو مرئي وکانوا یتطیرون وتشأموا لہا فکانت تصدہم في کثیر من الأوقات عن مصالحہم، فنفی الشرع ذٰلک، وأبطلہ، ونہی عنہ وأخبر أنہ لیس لہ تأثیر بنفع ولا ضر۔ (شرح النووي علی مسلم ۲/۲۳۱) لا یجوز العمل بالطیرة وہي التفاؤل بالطیر والتشاؤم بہا۔ (مرقاة المفاتیح، کتاب الطب والرقی / باب الفال والطیرة ۸/۳۹۱ )


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند