• معاملات >> دیگر معاملات

    سوال نمبر: 68821

    عنوان: اگر کسی ملازم کو تقرری کے وقت کہا گیا ہو کہ چھوڑنے سے ایک ماہ قبل اطلاع دے گا، تو شرعی حیثیت کیا ہے ؟اور کیا ملازم تنخواہ کا حقدار ٹھہرے گا؟

    سوال: فقیہانِ علومِ شریعہ سے شرعی رہنمائی مطلوب ہے ، یہ ایک رفاہی تعلیمی ادارہ ہے ۔ ایک مخیر تنظیم نے ابتدائی اخراجات کے لیے رقم فراہم کی۔اس کے بعد ادارہ بچوں کی فیس سے اخراجات پورے کرنے لگا۔ایک سوسائٹی کے تحت 14 سال تک ترقی پذیر رہا۔ پھر سوسائٹی ممبران میں اختلافات ہوئے اور فساد کی صورت بننے لگی۔ فساد سے بچنے کے لیے اصل کام کرنے والوں نے علحدگی اختیار کر لی۔ اور ان کے ساتھ کچھ اساتذہ بھی علحدہ ہو گئے ۔ اب پوچھنا یہ ہے کہ جو لوگ الگ ہوئے ہیں ان کی ایک/دو ماہ کی تنخواہیں ادارہ کے ذمہ ہیں، جو وہ دینے میں ٹال مٹول کر رہے ہیں۔اس کے بارے میں شرعی حکم کیا ہے ۔ اگر کسی ملازم کو تقرری کے وقت کہا گیا ہو کہ چھوڑنے سے ایک ماہ قبل اطلاع دے گا، تو شرعی حیثیت کیا ہے ؟اور کیا ملازم تنخواہ کا حقدار ٹھہرے گا؟ جبکہ اس نے آخری دن تک اپنی ڈیوٹی میں کوتاہی نہ کی ہو۔ براہِ کرم شرعی حکم سے آگاہ فرمائیے ۔

    جواب نمبر: 68821

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 1235-1257/N=11/1437 (۱، ۲) : اگر مدرسہ کے مدرسین اور ملازمین کے لیے یہ اصول بنالیا جائے کہ اگر کوئی مدرس مدرسہ سے مستعفی ہونا چاہے تو ایک ماہ قبل مہتمم مدرسہ کو اطلاع کردے تاکہ ایک مہینہ کی مدت میں مدرسہ کسی متبادل کا نظم کرسکے اور مدرسہ کا تعلیمی یا انتظامی حرج نہ ہو، تو اس میں شرعاً کچھ حرج نہیں، اور ہر مدرس اور ملازم کے لیے اس اصول پر عمل کرنا لازم وضروری ہوگا اور بلا عذر شرعی یامجبوری اس کی خلاف ورزی ناجائز ہوگی۔ البتہ بعض ذمہ داران مدرسہ بصورت عدم اطلاع ایک ماہ کی تنخواہ ضبط کرنے کا جو اصول بناتے ہیں، یہ جائز نہیں؛ کیوں کہ یہ ضابطہ کی خلاف ورزی کی وجہ سے مالی جرمانہ کی شکل ہے؛ کیوں کہ جب مدرس یا ملازم نے ایک ماہ مفوضہ ذمہ داری انجام دی اور ملازمت کا معاہدہ برقرار رہنے کی حالت میں انجام دی تو وہ بلا شبہ وہ اس کارکردگی کے معاوضہ (تنخواہ) کا حق دار ہوگا، کسی اصول وضابطہ کی خلاف ورزی کی وجہ سے کارکردگی کا معاوضہ سوخت کرنا جائز نہ ہوگا؛ کیوں کہ مالی جرمانہ شریعت میں جائز نہیں (دیکھئے: در مختار وشامی ۶: ۱۰۵، ۱۰۶، مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند، امداد الفتاوی ۲: ۵۳۷ سوال: ۶۴۴، ص ۵۳۷، ۵۳۸ سوال: ۶۴۵، ص۵۳۹، ۵۴۰ سوال: ۶۴۷، ص ۵۴۱ سوال: ۶۴۸، ص۵۴۱، ۵۴۲ سوال: ۴۶۹، ص۵۴۲ سوال: ۶۵۱، ص۵۴۲، ۵۴۳ سوال: ۶۵۲ اور ص۵۴۳ -۵۴۵ سوال: ۶۵۴، عزیز الفتاوی ص۷۲۴، ۷۲۵ سوال: ۱۴۲۲، امداد المفتین ص۷۵۱ سوال: ۸۱۳ اورص۷۵۲ سوال: ۸۱۴، فتاوی محمودیہ جدید ڈابھیل ۱۴: ۱۳۴، ۱۳۵ سوال: ۶۷۹۵، ص ۱۳۵، ۱۳۶ سوال: ۶۷۹۶، ص ۱۳۶، ۱۳۷ سوال: ۶۷۹۷، ص۱۳۹ سوال: ۶۷۹۸، ص ۱۴۲، ۱۴۳ سوال: ۸۰۱، اور احسن الفتاوی ۵: ۵۴۲ -۵۶۷ بشکل مقالہ بنام: تحریر المقال فی التعزیر بالمال) ، پس صورت مسئولہ میں جو مدرسین یا ملازمین ایک ماہ پیشگی اطلاع کیے بغیر مدرسہ سے مستعفی ہوگئے، انھیں ان کے ایام کارکردگی (ایک یا دو ماہ) کی بقایا تنخواہ دینا لازم وضروری ہے، موجودہ ذمہ داران مدرسہ کا ان کی بقایا تنخواہیں ضبط کرلینا جائز نہیں (فتاوی رشیدیہ ص ۵۱۸، مطبوعہ: گلستاں کتاب گھر، دیوبند) ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند