• معاملات >> دیگر معاملات

    سوال نمبر: 160887

    عنوان: مروجہ پگڑی كا كیا حكم ہے؟

    سوال: پهلا سوال ایک شخش نے مارکیت میں ایک دکان مارکیت کے مالک سے یک مشت رقم بطور پگڑی دیکر خریدی اور مالک کو ماهانه کرایه بهی دیتاهے کیا یه جا یز هے ؟ دوسرا سوال اس دکان کو جو پگڑ ی پر لی گئی هے اس کی کمائی حلال هے ؟ تیسرا سوال اس دکان کو کرایه دار آگے دوسرے شخشص کو کرایه پر دے سکتاہے یا نہیں ؟

    جواب نمبر: 160887

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:1039-986/L=9/1439

    (۱-۲) مروجہ پگڑی کا لین دین شرعاً جائز نہیں ہے البتہ جواز کی شکل یہ ہے کہ اصل عقد میں یہ طے کیا جائے کہ مثلاً پگڑی کی رقم پہلے مہینہ کا کرایہ ہے یا مثلاً ایک سال کے کرایہ کا پیشگی حصہ ہے اس صورت میں پگڑی کے نام پر لی ہوئی رقم پیشگی کرایہ میں شامل ہوکر جائز ہوگی اور بہرصورت اس دکان سے حاصل ہونے والی آمدنی حلال ہوگی۔

    (۳) کرایہ دار اگر دکان دوسرے کو کرایہ پر دے تو دوسرے سے صرف اتنا ہی کرایہ وصول کرسکتا ہے جتنا یہ مالک کو ادا کرے گا اگر زائد کرایہ وصول کرے گا تو زائد رقم کو صدقہ کرنا لازم ہوگا، البتہ اگر دکان کرایہ پر لے کر اپنی رقم سے اس کے اندر کوئی اضافہ کیا مثلاً الماری لگوادی یا پانی وغیرہ کا موٹر لگوادیا یا اس کے اندر نقش ونگار کرادیا جس سے دکان کی حیثیت بڑھ گئی تو اب زائد کرایہ لینے کی گنجائش ہے۔ تحقق مما ذکرنا أن بدل الخلو المتعارف الذی یأخذہ المؤجر من مستأجرہ لا یجوز، ولا ینطبق ہذا المبلغ المأخوذ علی قاعدة من القواعد الشرعیة، ولیس ذلک إلا رشوة حراما (بحوث فی قضایا فقہیة معاصرة: ص۱۱۴) أخبرنا الثوری، وسألہ عن الرجل یستأجر ذلک، ثم یؤاجرہ بأکثر من ذلک، فقال: أخبرنی عبیدة، عن إبراہیم، وحصین، عن الشعبی، ورجل، عن مجاہد أنہم کانوا یکرہونہ، إلا أن یحدث فیہ عملا․ (المصنف لعبد الرزاق: ج۸، ص: ۲۲۲) ولہ السکنی بنفسہ وإسکان غیرہ بإجارة وغیرہا (تنویر الأبصار) ولو آجر بأکثر تصدق بالفضل إلا فی مسألتین: إذا آجرہا بخلاف الجنس أو أصلح فیہا شیئا(الدر المختار) وفي الشامي: بأن جصصہا أو أو فعل فیہا مسناة وکذا کل عمل قائم؛ لأن الزیادة بمقابلة ما زاد من عندہ حملا لأمرہ علی الصلاح (رد المحتار: ج۹ص۳۸ط: زکریا دیوبند)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند