معاملات >> دیگر معاملات
سوال نمبر: 149938
جواب نمبر: 149938
بسم الله الرحمن الرحيم
639-608/N=6/1438
(۱) : جی ہاں! آپ کا فیصلہ شرعی اعتبار سے درست ہے۔ اللہ تعالی آپ کو عالم باعمل اور دین کا داعی وشیدائی بنائیں۔
(۲) : اس سلسلہ میں والدین کی ناراضگی آپ کے لیے باعث گناہ نہیں؛ البتہ ان سے ربط وضبط اچھا رکھیں اور گاہے گاہے موبائل فون پر ان سے سلام دعا کرتے رہیں اور ان کی خیر خیریت لیتے رہیں، اس سے إن شاء اللہآہستہ آہستہ ان کی ناراضگی بھی ختم ہوجائے گی۔
(۳) : جب آپ کے والد صاحب باقاعدہ کسی پرائیویٹ ادارے میں ملازم ہیں اور وہاں کی تنخواہ سے ان کی ضروریات پوری ہوجاتی ہیں؛ بلکہ وہ اسی آمدنی سے آپ کی یونیورسٹی کی تعلیم کے اخراجات بھی برداشت کرتے تھے تو فی الحال آپ پر ان کی مالی کفالت واجب نہیں۔
(۴) : اگر آپ کے والدین جسمانی خدمت کے محتاج نہیں ہیں (جیسا کہ ظاہر یہی ہے؛ کیوں کہ وہ ماشاء اللہ ملازمت کررہے ہیں) تو مدرسہ چھوڑنے کے سلسلہ میں آپ پر ان کی اطاعت واجب نہیں؛ کیوں کہ آپ فرض عین یا فرض کفایہ علم حاصل کررہے ہیں اور اس سلسلہ میں بلا وجہ شرعی والدین کا منع کرنا معتبر نہیں (ہدایت القرآن ۵: ۶۱- ۶۳، مطبوعہ: مکتبہ حجاز دیوبند)۔ قال الآلوسيعن البلقیني الشافعيفي فتاواہ: وأما سفرہ للعلم المتعین أو لفرض الکفایة فلا منع فیہ وإن کان یمکنہ التعلم في بلدہ خلافا لمن اشترط ذلک لأنہ قد یتوقع فی السفر فراغ قلب وإرشاد أستاذ ونحو ذلک اھ وقواعدنا لاتأباہ (روح المعاني، ۱۵: ۶۰، ط: دار إحیاء التراث العربي بیروت)۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند