معاملات >> دیگر معاملات
سوال نمبر: 149351
جواب نمبر: 149351
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 509-546/N=6/1438
(۱، ۲): صورت مسئولہ میں اگر خریدار نے زید کو اپنے لیے گاڑی خریدنے کا وکیل نہیں بنایا؛ بلکہ زیدخود بائع ہے اور خریدار زید ہی سے گاڑی خریدرہا ہے تو یہ معاملہ بہ طور استصناع درست ہے اور اس صورت میں خریدار کو وقت مقررہ پر مطلوبہ گاڑی مل جانا کافی ہے خواہ بائع مطلوبہ گاڑی مشتری کو کہیں سے بھی لاکر دے، اور وہ خود اپنے لیے کسی بھی قیمت پر گاڑی خریدے۔اور اگر خریدار نے زید کو اپنے لیے گاڑی خریدنے کا وکیل بنایا تو اس صورت میں زید بائع سے صرف گاڑی کی قیمت اور اخراجات لے سکتا ہے، مزید نہیں لے سکتا، نیز چپکے سے بھی کوئی رقم نہیں بچاسکتا؛ البتہ اگر وہ وکیل بالاجرت ہو تو اپنے موٴکل سے بہ طور محنتانہ متعینہ اجرت لے سکتا ہے۔
یہ آپ کے نفس سوال کا جواب ہے؛ لیکن جس گاڑی کی قیمت مارکیٹ میں چار لاکھ بیس ہزار روپے ہو، وہ کسی کو صرف ساڑھے تین لاکھ روپے میں مل جائے اور وہ بھی پاسینگ (آن روڈ) کے ساتھ ، صرف دو ماہ پیشگی پیسے دا کرکے ، سمجھ میں نہیں آتا؛ اس لیے جو شخص بھی اس طرح کا معاملہ کرے، بہت سوچ سمجھ کر کرے ،کہیں یہ فراڈ کی شکل نہ ہو یا کوئی بڑی دھوکہ دھڑی نہ ہو،آج کل عام طور پر عام طریقہٴ تجارت سے ہٹ کر جو معاملہ ہوتا ہے، اس میں کچھ ہی عرصہ کے بعد اصل حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے؛ اس لیے احتیاط چاہیے ،اللہ تعالی حفاظت فرمائیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند