• معاملات >> دیگر معاملات

    سوال نمبر: 149351

    عنوان: جس كو گاری خریداری كی ذمہ داری سونپی ہے كیا وہ چپكے سے پیسے بچاسكتا ہے؟

    سوال: ایک مسئلہ درپیش ہے ایک آدمی کو eco نامی گاڑی چاہئے جس کی قیمت بازار میں 420000 ہے اور زید اس کو کہتا ہے کہ لینا ہو تو پاسینگ کے ساتھ 350000 میں تجھے پڑے گی لیکن ایڈوانس پیسہ دینا ہوگا ۲ مہینہ کے بعد گاڑی ملے گی اور زید اس گاڑی کو 320000 میں خرید کر اس کو دیتا ہے تو کیا اس طرح اس کا 30000 روپے لینا درست ہوگا؟ نوٹ: اگر اس آدمی کو پتہ نہ ہو کہ زید کو اس میں سے 30000 روپے مل رہے ہیں تو اس کا کیا حکم ہوگا اس کی بھی وضاحت فرمائیں ۔

    جواب نمبر: 149351

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 509-546/N=6/1438

    (۱، ۲): صورت مسئولہ میں اگر خریدار نے زید کو اپنے لیے گاڑی خریدنے کا وکیل نہیں بنایا؛ بلکہ زیدخود بائع ہے اور خریدار زید ہی سے گاڑی خریدرہا ہے تو یہ معاملہ بہ طور استصناع درست ہے اور اس صورت میں خریدار کو وقت مقررہ پر مطلوبہ گاڑی مل جانا کافی ہے خواہ بائع مطلوبہ گاڑی مشتری کو کہیں سے بھی لاکر دے، اور وہ خود اپنے لیے کسی بھی قیمت پر گاڑی خریدے۔اور اگر خریدار نے زید کو اپنے لیے گاڑی خریدنے کا وکیل بنایا تو اس صورت میں زید بائع سے صرف گاڑی کی قیمت اور اخراجات لے سکتا ہے، مزید نہیں لے سکتا، نیز چپکے سے بھی کوئی رقم نہیں بچاسکتا؛ البتہ اگر وہ وکیل بالاجرت ہو تو اپنے موٴکل سے بہ طور محنتانہ متعینہ اجرت لے سکتا ہے۔

    یہ آپ کے نفس سوال کا جواب ہے؛ لیکن جس گاڑی کی قیمت مارکیٹ میں چار لاکھ بیس ہزار روپے ہو، وہ کسی کو صرف ساڑھے تین لاکھ روپے میں مل جائے اور وہ بھی پاسینگ (آن روڈ) کے ساتھ ، صرف دو ماہ پیشگی پیسے دا کرکے ، سمجھ میں نہیں آتا؛ اس لیے جو شخص بھی اس طرح کا معاملہ کرے، بہت سوچ سمجھ کر کرے ،کہیں یہ فراڈ کی شکل نہ ہو یا کوئی بڑی دھوکہ دھڑی نہ ہو،آج کل عام طور پر عام طریقہٴ تجارت سے ہٹ کر جو معاملہ ہوتا ہے، اس میں کچھ ہی عرصہ کے بعد اصل حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے؛ اس لیے احتیاط چاہیے ،اللہ تعالی حفاظت فرمائیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند