عنوان: (۱) اگر کوئی قرآن کریم کی قسم کھائے اور کہے کہ مسجد میں میرے ساتھ لواطت کی گئی ہے، تو کیا اس نے گناہ کیا؟ کیا یہ حرکت قابل قبول ہے؟ (۲) ایک شخص مسجد کے اندر کھڑا ہوکر کہتا ہے ” للہ تعالی، میں اس مردہ عورت کو نہیں جانتاہوں اور نہ ہی اس کے ساتھ میرا کسی طرح کا کوئی تعلق ہے“ کیا اس شخص کو مسجد میں اس طرح کی بات کہنے کی اجازت ہے؟ کیا اسلام میں یہ قابل قبول ہے؟ برا ہ کرم، جواب دیں۔اس سلسلے میں آپ کا فتوی بہت ضروری ہے۔
سوال: (۱) اگر کوئی قرآن کریم کی قسم کھائے اور کہے کہ مسجد میں میرے ساتھ لواطت کی گئی ہے، تو کیا اس نے گناہ کیا؟ کیا یہ حرکت قابل قبول ہے؟ (۲) ایک شخص مسجد کے اندر کھڑا ہوکر کہتا ہے ” للہ تعالی، میں اس مردہ عورت کو نہیں جانتاہوں اور نہ ہی اس کے ساتھ میرا کسی طرح کا کوئی تعلق ہے“ کیا اس شخص کو مسجد میں اس طرح کی بات کہنے کی اجازت ہے؟ کیا اسلام میں یہ قابل قبول ہے؟ برا ہ کرم، جواب دیں۔اس سلسلے میں آپ کا فتوی بہت ضروری ہے۔
جواب نمبر: 2361001-Sep-2020 : تاریخ اشاعت
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی(د): 1033=845-7/1431
جھوٹی قسم کھانا سخت گناہ ہے، اور سچ بات پر قسم کھانے کی گنجائش ہے (جائز) ہے۔
(۲) اس طرح کے معاملات مسجد سے باہر یا مسجد کے خارجی حصے میں طے کرنا چاہیے۔ عن الحسن مرسلاً قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یأتي علی الناس زمان یکون حدیثہم في مساجدھم في أمر دنیاہم قلا تجالسوھم فلیس للّٰہ فیہم حاجة رواہ البیہقي في شعب الإیمان (مشکاة: 71)
وعن مالک قال بني عمر رحبة في ناحیة المسجد تسمی البطیحاء وقال من کان یرید أن یلغظ أو ینشد شعرًا أو یرفع صوتہ فلیخرج إلی ہذہ ا لرحبة رواہ في الموطا (مشکاة: ۷۱)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند