• عبادات >> قسم و نذر

    سوال نمبر: 167365

    عنوان: نذر ومنت اور اس سے متعلق بعض مسائل

    سوال: میں نے اللہ سے یہ نذر مان لی تھی کہ اللہ مجھے امیر کردے ، میں پورے پیسے لٹایا کروں گا غریبوں میں، میرا ’پورے‘ سے مطلب’ خوب سے‘ تھا، پر پورے کا مطلب تو پورے ہی ہوتاہے اور اب مجھے لگ رہاہے کہ میں نے پورے پیسے کہہ دئیے ، تو کیا مجھے امیر ہوجانے پر پورے پیسے دیں پڑیں گے؟ یا پورے کا مطلب خوبہی رکھنا ہے ۔ (۲) میں نے اللہ سے جماعت میں جانے کی نذر مان لی تھی اور پھر میں نے اللہ سے کہا اللہ مجھے اس میں معاف کردے ، میرا وعدہ آگے کبھی کچھ نہیں قبولوں گا، میرا مطلب یہ تھا کہ اللہ مجھے جماعت والی نذر کے لیے معاف کردے ، میرا وعدہ میں آگے سے نذر نہیں مانوں گا، اور کچھ دن بعد میں نے دو نفل کہہ دیئے اور میں نے وہ پڑھ بھی لی، اور میرا یہ وعدہ ٹوٹ گیا، اس میں مجھے کیا کرنا چاہئے؟ (۳) میری امی کو صدقے کے پیسے دینے تھے، اور میں نے اپنے ایک دوست سے کہا کہ کوئی ایسا غریب ہو تو بتا دیں اور اس نے مجھے ایک عورت کے بارے میں بتایا اور میں نے اسے کہہ دیا کہ بس اسی کو دیں گے، پھر میں نے امی سے کہا ،امی نے کہا کسی اور عورت کو دیں گے جو نماز بھی اچھے سے پڑھتی ہو وہ دعا دے گی، اور امی نے وہ پیسہ کسی اور کو دیدیا، اب مجھے یہ پوچھنا ہے کہ جیسے میری زبان سے یہ نکل گیا تھا کہ اسی کو دیدیں گے تو کیا ہمیں وہ پیسہ اسی کو دینا چاہئے تھا؟ براہ کرم، میرے تینوں سوالوں کا جواب دیں۔ شکریہ

    جواب نمبر: 167365

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:383-326/N=4/1440

    (۱): سوال میں نذرکے جو الفاظ نقل کیے گئے ہیں، یہ بعینہ نذر کے الفاظ معلوم نہیں ہوتے ؛ بلکہ یہ ان کی حکایت وترجمانی معلوم ہوتی ہے؛ اس لیے آپ نے نذر میں جو الفاظ کہے ہیں، براہ کرم! بعینہ وہ الفاظ لکھ کر سوال کریں، مثلاً اگر اللہ نے مجھے امیر کردیا تو میں غریبوں میں پورے پیسے لٹایا کروں گا یا اللہ کے لیے مجھ پر لازم ہے کہ میں امیر ہوجانے پر پورے پیسے غریبوں میں لٹایا کروں۔

    (۲): جماعت میں جانے کی نذر منعقد نہیں ہوتی؛ کیوں کہ جماعت میں جانا عبادت مقصودہ نہیں ہے۔ اور آپ نے آئندہ نذر نہ ماننے کا اللہ سے جو وعدہ کیا، یہ غلط کیا؛ کیوں کہ عبادت مقصودہ کی نذر صحیح ہوتی ہے ، پس آپ نے آئندہ نفل نماز کی نذر مان لی اور اسے پورا بھی کرلیا تو اس میں کچھ حرج یا گناہ نہیں؛ البتہ آئندہ کوئی اچھا کام نہ کرنے کا وعدہ نہ کریں۔

    (۳): آپ نے امی کے پیسوں کے بارے میں محض اپنی مرضی سے جو کہہ دیا ، شریعت میں اس کا کچھ اعتبار نہیں؛ اس لیے اگر آپ کی امی نے کسی اور غریب عورت کو وہ پیسے دیدیے تو اس میں کچھ گناہ نہیں؛ البتہ آدمی کو دوسروں کے پیسوں کے بارے میں اس طرح نہیں کہنا چاہیے۔ اور اگر کہنا ہو تو یوں کہہ دے کہ میں اسی کو دلانی کی کوشش کروں گا یا یہ کہ میں امی سے کہوں گا کہ آپ اسے دیدیں ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند