• معاشرت >> نکاح

    سوال نمبر: 846

    عنوان: نکاح سے قبل جنسی عمل کے نتیجے میں ہونے والی اولاد کا حکم؟

    سوال:

    (1) میں نکاح کی عظیم سنت کے بارے میں پوچھنا چاہتا ہوں۔ لڑکی والے راضی نہیں ہیں لیکن لڑکی نکاح کے لیے راضی ہے۔ لہٰذا کیا ایسا ممکن ہے کہ لڑکی کے ولی کے بغیر دوسرے گواہوں کی موجودگی میں سنت نکاح کی تکمیل ہوجائے؟

    (2) اگر ایک دوسرے کو میاں بیوی مان کر نکاح سے پہلے لڑکا اور لڑکی جنسی عمل میں ملوث ہوجائیں اور بعد میں شادی کرلیں تو پھر ان کی اولاد جائز ہوگی یا ناجائز؟ براہ کرم، وضاحت فرمائیں۔

    جواب نمبر: 846

    بسم الله الرحمن الرحيم

    (فتوى:  685/ج = 685/ج)

     

    (1) سمجھ دار بالغ لڑکی اگر اپنا نکاح اپنے والدین کی مرضی کے خلاف کسی لڑکے سے ازخود کرلے تو نکاح تو ہوجاتا ہے اور دونوں باہم میاں بیون بھی بن جاتے ہیں لیکن اسلامی معاشرہ میں لڑکی کا ازخود نکاح کرنا ٹھیک نہیں ہے، بلکہ معیوب ہے۔ لڑکی کو اپنے نکاح کے جملہ امور اپنے ولی کے حوالہ کرنا چاہیے۔ قال صلی اللہ علیہ وسلم: لا نکاح إلا بوليّ (مشکوة شریف: ص۲۷۰)

    (2) حمل کی ولادت عقد نکاح سے اگر چھ مہینہ یا اس سے زائد مدت میں ہو تو وہ حمل جائز اور ثابت النسب ہوگا، اوراگر اس سے کم مدت میں ہو تو ناجائز اور غیر ثابت النسب ہوگا، کذا في رد المحتار: 4/142)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند