• معاشرت >> نکاح

    سوال نمبر: 69529

    عنوان: کسی لڑکی کا از خود نکاح کرنا یا کسی کو وکیل بنانا؟

    سوال: مفتی صاحب اگر بالغ لڑکی اپنی طرف سے کسی ایسے کو وکیل بنائے موبا ئل جسے وہ جانتی ہو اوروہ آددمی بھی اسکو جانتا ہو اور وہ بولے میرانکاح فلاسے کرادواور وہ پھر اس لڑکی طرف سے وکیل بنکے اس لڑکی کا نکاح کسی مولوی صاحب سے چار پانچ لوگ کے بیچ اس لڑکے سے کرادے جس وہ بولی تھی تو شریعت سے یہ نکاح ہو جائگا جب کی لڑکی لڑکا ایک بیرادری کے معاشرے کے لحاظ سے دونوں ٹھیک ہوں۔

    جواب نمبر: 69529

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 1114-1132/N=11/1437 اگر وکیل بنانے والی لڑکی عاقلہ وبالغہ ہے اور اس کا وکیل باقاعدہ مجلس نکاح منعقد کرکے اس کا نکاح شرعی طریقہ پر شرعی گواہوں کی موجودگی میں اس شخص سے کرادیتا ہے ، جس سے لڑکی نے نکاح کرانے کا وکیل بنایا تو لڑکی کا نکاح اس لڑکے سے شرعاً درست ومنعقد ہوجائے گا اور دونوں باہم میاں بیوی بن جائیں گے ، البتہ کسی لڑکی کا از خود اپنا نکاح کرنا یا اپنے ولی وسرپرست کی اجازت ورضامندی اور ان کی اطلاع کے بغیر کسی کو اپنے نکاح کی وکیل بنانا شریعت میں پسندیدہ نہیں؛ اس لیے کسی مسلمان لڑکی کو اس طرح ہرگز نکاح نہ کرنا چاہئے، ( فنفذ نکاح حرة مکلفة بلا ) رضا ( ولی ) ، والأصل أن کل من تصرف في مالہ تصرف في نفسہ وما لا فلا (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب النکاح، باب الولي ۴: ۱۵۵، ط: مکتبة زکریا دیوبند) ، قولہ: ( ولایة ندب ) أي: یستحب للمرأة تفویض أمرھا إلی ولیھا کی لا تنسب إلی الوقاحة، بحر، وللخروج من خلاف الشافعي فی البکر ( رد المحتار، کتاب النکاح، باب الولي ۴: ۵۴) ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند