• معاشرت >> نکاح

    سوال نمبر: 433

    عنوان:

    کیا ولی کی اجازت سے کی گئی نابالغ کی شادی درست ہے؟ 

    سوال:

    (۱) کیا ولی کی اجازت سے کی گئی نابالغ کی شادی شریعت اسلامیہ کی رو سے قابل قبول ہے؟

     

    (۲) شریعت اسلامیہ کی رو سے جہیز کا کیا حکم ہے؟

     

    (۳) آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کا بنایا ہوا ماڈل نکاح نامہ کیا ہے؟ مجھے معلوم ہوا ہے کہ اس میں کئی ایسی دفعات ہیں جو شریعت اسلامیہ کی رو سے درست نہیں ہیں۔ کیا مجھے اس نکاح نامہ کی نقل مل سکتی ہے؟ اس نکاح نامہ کے سلسلے میں آپ کی کیا رائے ہے؟

    جواب نمبر: 433

    بسم الله الرحمن الرحيم

    (فتوى: 33/د=33/د)

     

    (1)  نابالغ لڑکے یا لڑکی کا نکاح اگر اس کے ولی قریب یعنی باپ اوردادا نے کیا ہے تو وہ نکاح صحیح اور لازم ہوجائے گا۔ اور اگر ولی بعید مثلاً چچا، بھائی وغیرہ نے کیا ہے تو نکاح تو صحیح ہوجائے گا لیکن لڑکے اور لڑکی کو خیارِ بلوغ حاصل ہوگا، یعنی اگر وہ اس نکاح کو ختم کرنا چاہیں تو بالغ ہونے کے وقت فوراً اس نکاح کو فسخ کرنے کا اظہار کردیں اور شرعی پنچائت یا دارالقضاء میں جاکر اس کو فسخ کرالیں: قال في الفتاوی الہندیة: فإن زوجہما الأب والجد فلا خیار لہما بعد البغول وإن زوجہما غیر الأب والجد فلکل واحد منہما الخیار إذا بلغ إن شاء أقام علی النکاح وإن شاء فسخ... ویشترط فیہ القضاء. (ج:۱، ص:۲۸۵) خیارِ بلوغ کے مسائل کو وقت ضرورت پر تفصیل سے سمجھ لینا چاہیے۔

     

    (2)  جہیز، شادی و نکاح کا کوئی شرعی جز (حصہ) نہیں ہے۔ اپنی بیٹی کو رخصت کرتے وقت کچھ ضروری سامان کپڑے وغیرہ، ماں باپ اپنی حیثیت کے مطابق لڑکی کے ساتھ کردیں تو کوئی حرج نہیں ہے۔ البتہ جہیز کا لین دین اس طرح کرنا جس میں مطالبہ پایا جائے یا رواج کی پابندی کا خیال کرکے دیا جائے، یا دینے والا ریاء و نمود کے طور پر اپنی حیثیت سے بڑھ کر دینے کو لازم و ضروری سمجھے تو غلط اور برا ہے۔ پھر اسکے لیے مقروض ہوجانا یا سودی قرض لینا اور بھی برا ہے۔

     

    (3)  نکاح نامہ کی نقل براہ راست مسلم پرسنل لا بورڈ کے آفس سے حاصل کریں۔ بعد ملاحظہ جو بات دریافت کرنی ہو معلوم کریں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند