• معاشرت >> نکاح

    سوال نمبر: 3672

    عنوان:

    ایک لڑکی کا نکاح اس کی مرضی کے خلاف ہوا ، اس نے والدین کے دباؤ یا ان کو شرمندگی سے بچانے کے لیے نکاح قبول کرلیا، لیکن شوہر کو خود کو چھونے سے منع کردیا اور ازدواجی وظیفہ نہیں ہوا۔ اس نے شوہر سے طلاق کا مطالبہ کیا تو شوہر نے طلاق دینے سے انکار کردیا، نیز لڑکی کسی اور سے نکاح کرنا چاہتی ہے ، اب وہ ازدواجی وظیفہ کی ادائیگی کے بغیر ایک گھر میں رہ رہی ہے۔ ایسی صورت میں (۱)نکاح کی صورت کیا ہوگی؟ (۲) اگر منکوحہ شوہر کو ناپسند کرتی ہو اور اس کے ساتھ رہنا نہ چاہتی ہو تو اس کو پابند نکاح رکھنا جائز ہوگا؟ (۳) جو لوگ انہیں ساتھ رہنے پر مجبور کررہے ہیں کیا وہ گناہ گار نہ ہوں گے؟ ( کیونکہ غالب گمان ہے کہ طلاق نہ ملنے کی صورت میں لڑکی جس شخص کو چاہتی ہے اس کے ساتھ مرتکب گناہ ہوجائے۔)

    سوال:

    ایک لڑکی کا نکاح اس کی مرضی کے خلاف ہوا ، اس نے والدین کے دباؤ یا ان کو شرمندگی سے بچانے کے لیے نکاح قبول کرلیا، لیکن شوہر کو خود کو چھونے سے منع کردیا اور ازدواجی وظیفہ نہیں ہوا۔ اس نے شوہر سے طلاق کا مطالبہ کیا تو شوہر نے طلاق دینے سے انکار کردیا، نیز لڑکی کسی اور سے نکاح کرنا چاہتی ہے ، اب وہ ازدواجی وظیفہ کی ادائیگی کے بغیر ایک گھر میں رہ رہی ہے۔ ایسی صورت میں (۱)نکاح کی صورت کیا ہوگی؟ (۲) اگر منکوحہ شوہر کو ناپسند کرتی ہو اور اس کے ساتھ رہنا نہ چاہتی ہو تو اس کو پابند نکاح رکھنا جائز ہوگا؟ (۳) جو لوگ انہیں ساتھ رہنے پر مجبور کررہے ہیں کیا وہ گناہ گار نہ ہوں گے؟ ( کیونکہ غالب گمان ہے کہ طلاق نہ ملنے کی صورت میں لڑکی جس شخص کو چاہتی ہے اس کے ساتھ مرتکب گناہ ہوجائے۔)

    جواب نمبر: 3672

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 345/ ل= 12/ تل

     

    اگر لڑکی نے نہ چاہتے ہوئے بھی نکاح قبول کرلیا تھا تو بھی نکاح منعقد ہوگیا، اب جب تک شوہر طلاق نہ دے یا خلع نہ کرلے اس وقت تک اس لڑکی کا دوسری جگہ نکاح کرنا حرام ہوگا۔

    (۲) اولاً تو شوہر اور بیوی دونوں کے رشتہ داروں سے کچھ معزز افراد مل کر معاملہ کو سلجھانے کی کوشش کریں، اکر معاملہ حل نہہوسکے تو طلاق یا خلع کے ذریے معاملہ کو رفع دفع کردیا جائے إذا وقع بین الزوجین اختلاف أن یجتمع أھلھما لیصلحوا بینھما فإن لم یصطلحا جاز الطلاق والخلع (شامی، ج۵، ص۸۷، ط زکریا دیوبند)

    (۳) ان کے ارادوں کا تو علم نہیں البتہ مسلمان ہونے کی وجہ سے ان کے ساتھ اچھا ہی گمان رکھنا چاہیے اور یہ سمجھنا چاہیے کہ ان کا مقصد صلح سے دونوں خاندانوں کے درمیان اختلاف پیدا ہونے سے بچانا ہے لأن أمور المسلمین محمولہ علی السداد والصلاح حتی یظھر غیرہ کما في قواعد الفقہ:۱۱۲)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند